Sunday, December 14, 2014

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0 comments

حضرت عبد ا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

دنیا کا کوئ باپ آپ سے زیادہ خوش بخت اور بلند اقبال نہیں ہے آپ اس عظیم ہستی کے باپ ہیں جو با عث تکوین کا ئنات ہے اولین و آخرین انبیاء ، مرسلین اور انکی امتیں جسکے فیض سے فیض یاب ہیں جو شفیع المذنبین ھے - ایسی بے مثال و بے نظیر ہستی کے باپ کا نام عبداللہ ہے -

حضرت عبدالمطلب کی نذر

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے اور سب سے لاڈلے بیٹے تھے آپکے والد نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا کۓ اور سب جوان اور صحتمند ہو کر انکی تقویت کا باعث بنے تو وہ ان میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیں گے - جب سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ بیس سال کی ہوگئ تو اب انہیں اپنی نذر ایفاء کرنے کا خیال آیا - آپ نے اپنے فرزندوں سے اس بات کا تذکرہ کیا تمام بیٹوں نے سعادت مندی سے سر جھکا دۓ -
طے پایا کہ بیت ا للہ شریف کے فال نکالنے والے سے فال نکالی جاۓ جس کے نام کا قرعہ نکلے اسکو راہ خدا میں قربان کر دیا جاۓ - سب مل کر بیت اللہ شریف کے پاس جمع ہوۓ فال نکالنے والے کو بلایا گیا صورت حال سے اسے آگاہ کیا گیا وہ فال کے تیر نکال کر لے آیا اور فال نکالنے کی تیاری کرنے لگا کسی ایک بچہ کا نام ضرور نکلے گا - آپ کے سارے بچے شکل و صورت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے - کسی ایک کے گلے پر چھری ضرور پھیری جاۓ گی لیکن عبدالمطلب پہاڑ کی چٹان بنے کھڑے ہیں - ان کے ارادے میں کسی لچک کا دوردور تک نشان نہیں - اپنے رب سے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کریں گے -


قرعہ کس کے نام نکلا ؟

فال نکا لنے والے نے فال نکالی قرعہء فال حضرت عبداللہ کے نام نکلا - یہ درست ہے کہ عبداللہ بہت حسین ہیں بوڑھے باپ کے یہ سب سے چھوٹے بیٹے ہیں اور سب بھائیوں سے زیادہ وہ انہیں محبوب ہیں - لیکن یہاں معاملہ عبدالمطلب اور اسکے خدا کا ہے - اس میں کوئ پیاری سے پیاری چیز حائل نہیں ہوسکتی اگر اسکے خالق نے قربانی کے لۓ عبداللہ کو پسند فرمایا ہے تو عبداللہ کو اسکی رضا کے لۓ ضرور قربان کیا جاۓ گا - 
چھری لائ جاتی ہے عبداللہ کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے لۓ حضرت عبدالمطلب آستین چڑھارہے ہیں اسکی اطلاع مکہ کے ہرگھر میں گونجنے لگتی ہے - مکہ کے سردار کہتے ہیں عبداللہ انکے سامنے ذبح کردیا جاۓ ایسا ہرگز نہیں ہوگا - وہ منت سماجت پر اتر آۓ کہ 
" اے ہمارے سردار! اگر بیٹوں کو ذبح کرنے کی رسم کا آغاز تمہاری جیسی ہستی نے کردیا تو پھر اس رسم کو بند کرنا کسی کے بس کا روگ نہ رہے گا اپنی قوم کے نونہالوں پر رحم کرو "-

آخر کیا حل نکالا گیا؟

طویل کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ حجاز کی عرافہ کے پاس جاتے ہیں-وہ جو فیصلہ کرے اسکو وہ سب تسلیم کریں گے - وہاں جاتے ہیں اسکو اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہیں 
وہ کہتی ہے مجھے ایک دن کی مہلت دومیرا تابعی آۓ گا تو میں اس سے پوچھ کر بتاؤں گی دوسرے روز پھر اسکے پاس جاتے ہیں وہ کہتی ہے میرا تابعی آیا تھا میں نے تمھارے سوال کے بارے میں اس سے پوچھا تھا اس نے اسکا حل مجھے بتایا ہے پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمھارے ھاں مقتول کی دیت کیا ہے انہوں نے بتایا دس اونٹ - اس نے کہا تم اپنے وطن واپس جاؤاور---------------
ایک طرف دس اونٹ کھڑے کر دینا اور دوسری طرف عبداللہ - پھر فال نکالنا - اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا توان کو ذبح کردینا تمہاری نذر ادا ہوجاۓ گیا اور اگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلے تو پھر دس دس اونٹ بڑھاتے جانا اور قرعہ نکالتے جانا یہاں تک کہ قرعہ عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں کے نام نکلے جتنے اونٹوں پر قرعہ نکلے انکو ذبح کردینا یوں تمہاری نذر پوری ہوجاۓ گی- 
سارا کارواں عرافہ کے اس فیصلہ کو سن کر مکہ واپس آگیا اور اسکے کہنے کے مطابق قرعہ اندازی شروع کردی - دس اونٹوں کے وقت بھی قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا - دس دس اونٹ بڑھاتے گۓ لیکن ہر بار قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئ - اس وقت قرعہ اندازی کی گئ تو حضرت عبداللہ کے بجاۓ سو اونٹوں پر قرعہ نکلا -
حضرت عبدالمطلب کو بتایا گیا تو آپ نے کہا تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار ااونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو تسلیم کرونگا ورنہ نہیں- 
عالم انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا چنانچہ وہ سو اونٹ ذبح کردۓ گۓ اور اعلان عام کیا گیا کہ انکے گوشت کو جو چاہے جتنا چاہے لے جاۓ کسی کو روکا نہ جاۓ یہاں تک کہ گوشت خور پرندے اور درندے کو بھی انکا گوشت کھانے سے منع نہ کیا جاۓ 


حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح


حضرت عبدالمطلب کی خواہش تھی کہ اپنے نیک بخت بیٹے کی شادی کی خوشی منائیں اور ایسی دلہن بیاہ کر لائیں جو اپنے دولہا کی طرح خصائل وشمائل میں اپنی نظیر نہ رکھتی ہو - آپ کی حقیقیت شناس نگاہ نے قریش کے بنو زہرہ خاندان کے سرداروھب بن عبد مناف بن زہرہ کی نور نظر حور شمائل لخت جگر آمنہ کا انتخاب کیا - آپ وھب کے گھر تشریف لے گۓ اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی بچی آمنہ کا رشتہ ان کے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ کے لۓ دیں -
وھب نے حضرت عبدالمطلب کی خواہش کے مطابق حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبداللہ کو دینا منظور کر لیا پھر جلد ہی تقریب نکاح انجام پذیر ہوئ اور آپ اپنے عظیم القدر سسر کے زیر سایہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں -


حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال


حضرت عبدالمطلب کا پیشہ تجارت تھا - آپ کی کو ششوں کے طفیل مکہ کے تجارتی کاروانوں کو شام ، فلسطین وغیرہ ممالک میں آمدورفت کی اجازت ملی تھی چنانچہ حضرت عبدالمطلب کے تجارتی سامان سے لدے ھوۓ اونٹ ان ممالک میں آیا جایا کرتے تھے شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ کو اپنے والد کے ایک تجارتی قافلہ کی نگرانی کرنے اور کاروباری ذمہ داریاں انجام دینے کے لۓ ملک شام جانا پڑا - 
تجارتی مصروفیتوں سے فراغت پانے کے بعد جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ واپس آنے کے لۓ روانہ ھوۓ تو راستہ میں بیمار ہوگۓ قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئ اس لۓ وہ اپنے ننہال میں رک گۓ تاکہ طبیعت سنبھلے تو سفر شروع کریں - دوسرے ساتھی واپس لوٹ آۓ آ پ ایک ماہ وہاں بیمار رہنے کے بعد واصل بحق ہوگۓ -

               اِ نٌَا  لِلٌٰہِ  وَ  اِ نٌَا  اِ لَیْہِ  رَا جِعُوْن

انکی اچانک وفات سے سب کو ضرور صدمہ ہوا ہوگا لیکن حضرت آمنہ کے دل پر جو قیامت ٹوٹی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتی ہیں -
                 ( ضیا ء النبی ﷺ )

در یتیم ﷺ


حبیب کبریاء ﷺ ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا لیا گیا اور آپ یتیم ہوکر رہ گۓ

علامہ احمد بن زینی دحلان رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں -

"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائ تو فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی اے ہمارے اللہ ! اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہوگیا اسکا باپ نہ رہا - اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ہم اسکے حافظ اور مددگار ہیں -
دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں اسکا دوست ہوں ، نگہبان ہوں ، مددگار ہوں ، پروردگار ہوں ، اسکی مدد کرنے والا ہوں اسکو رزق دینے والا ھوں اور ہر بات میں اسکے لۓ کافی ہوں - پس تم اس پر درود پڑھا کرو اور اسکے نام سے برکت حاصل کیا کرو -"

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 
پو چھا گیا

کہ نبی کریم ﷺ کو یتیم پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ آپ نے فرمایا اسکی متعدد حکمتیں ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہے تاکہ کسی مخلوق کا حق آپ پر نہ رہے - یعنی وہ حقوق جو بالغ ہونے کے بعد کسی پر انکی ادائیگی لازم ہوتی ہے - آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی اس وقت انتقال فرما یا جب کہ حضور ﷺ کی عمر مبارک صرف چھ سال تھی نیز یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ معزز وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت عطا فرماۓ - نیز آپ کی قوت آپکے آباءواجداد اور ماؤں کے ذریعہ سے نہیں اور نہ مال کے ذریعہ سے بلکہ آپکی قوت و طاقت کا راز اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے - اور اسکی حکمت یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو جب یتیمی کا ذاتی تجربہ ہوگا تو حضور ﷺ فقیروں اور یتیموں پر رحم فرمائیں گے - 

                          ( السیرۃ النبویہ )


Monday, December 8, 2014

آن لائن شریعت کورس

0 comments

"آن لائن شریعت کورس"

اس کورس میں درج ذیل مضامین پڑھاۓ جائیں گے انشاء اللہ عزّوجل
  • تجوید
  • تفسیر (سورۃ النساء ، یٰس ، الحجرات ، مائدہ )
  • حدیث
  • فقہ
  • عربی گرامر
  • عقا ئد

 وقت ؛


          11 سے 12 رات (پاکستانی وقت)

ایّام ؛


            پیر ، منگل ، بدھ ، جمعرات

skype  ID  ( al-haq-islam )

start on monday  -  15 Dec  2014
only for sisters.

Wednesday, December 3, 2014

عبد ا لمطلب

0 comments

عبد ا لمطلب

عبد مناف کے چار بیٹے تھے سب سے بڑے کا نام ہاشم تھا اور سب سے چھوٹے کا نام مطلب تھا - ہاشم کی شادی یثرب کے قبیلہ بنی نجار کے سردارعمر بن لبید الخزرجی کی صاحبزادی سلمیٰ کے ساتھ ھوئ - جب بچہ پیدا ہوا تو اسکے سرکے بالوں میں چند سفید بال تھے اس لۓ انکا نام شیبہ (بوڑھا) تجویز ہوا ہاشم پھر تجارتی کارواں کے ہمراہ شام گۓ وہیں انکی وفات ھوئ -
شیبہ اور انکی والدہ سلمیٰ تقریباً سات سال تک یثرب(مدینہ) میں رہے - پھر انکے چچا مطلب دونوں ماں بیٹے کو لینے مدینہ روانہ ہوۓ سلمیٰ نے خود آنے سے انکار کردیا لیکن بیٹے کے مستقبل کی خاطر بچہ کو مکہ بھیجنے پر رضامند ہو گئیں -


"وجہء تسمیہ"

مطلب نے اپنے بھتیجے شیبہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا اور مکہ کے لۓ روانہ ہوگۓ مکہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا بڑے بڑے رئیس اپنی اپنی مجلسیں جماۓ بیٹھے تھے جب مطلب انکے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ آپ نے جواب دیا یہ میرا غلام ھے - گھر پہنچے بیوی نے بچہ کے بارے میں استفسار کیا تو اسے بھی یہی جواب دیا کہ یہ میرا غلام ھے - اسطرح شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوگۓ پھر مطلب نے بچہ کو نہلایا نیا لباس پہنایا اور لوگوں کو بتایا کہ یہ میرے بڑے بھائ ہاشم کا لخت جگر ہے لیکن عبدالمطلب کے نام کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئ کہ عمر بھر اسی نام سے پکارے جاتے رہے - شیبہ جو انکا اصلی نام تھا اسکی طرف کسی نے توجہ نہ دی -


"چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائ"

بنوجرہم کو بنو خزاعہ نےجب مکہ سے جلاوطن کیا تو انہوں نے بیت اللہ شریف کے اندر سونے کے جو دو ہرن آویزآں تھے اور تلواریں ، زرہیں اور دیگر قیمتی سامان - وہ سب زمزم کے کنوئیں میں پھینکا پھر اسکو مٹی سے بھر دیا تاکہ بنو خزاعہ وغیرہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں - چنانچہ سینکڑوں سال زمزم بند رہا - حتیٰ کہ لوگوں کے ذہنوں سے اسکی یاد اور اسکی اہمیت محو ہوگئ - لوگ مکہ کے دوسرے کنوؤں سے اپنی ضروریات پوری کرنے لگے -
ایک روز عبدالمطلب حطیم میں سورہے تھے کسی نے خواب میں آکر کہا احفر طیبہ - طیبہ کو کھودو انہوں نے پوچھا - طیبہ کیا ہے تو کہنے والا غائب ہوگیا - دوسری رات پھر جب وہ اپنے بستر پر آکر لیٹے آنکھ لگی تو اس شخص نے پھر کہا احفر برہ - برہ کو کھودو - آپ نے پوچھا برہ کیا ھے تو پھر وہ غائب ھوگیا تیسری رات پھرخواب میں آواز آئ احفرمضنونہ - مضنونہ کو کھودو - آپ نے پوچھا مضنونہ کیا ہے وہ پھرغائب ہوگیا - جب چوتھی رات آئ اور وہ اپنی خواب گاہ میں آرام کرنے کے لۓ لیٹے تو آنکھ لگتے ہی آواز آئ احفر زمزم ، زمزم کو کھودو - آپ نے پوچھا زمزم کیا ہے؟ آج اس شخص نے تفصیلات بتاتے ہوۓ کہا - 

" زمزم تیرے پدر نامور کی میراث ہے - یہ چشمہ نہ اسکا پانی ختم ہوتا ہے اور نہ اسکی مرمت کی جاتی ہے -اس سے حجاج کرام کو سیراب کیا جاتا ہےیہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں کالا کوا چونچیں مار رہا ھے - چیونٹیوں کی بستی کے با لکل قریب - "

جب تفصیلات کا علم ہوگیا تو دوسرے روز آپ اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ کدال لے کر (اس وقت انکا یہی ایک بیٹا تھا ) آگۓ اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں مشرکین بتوں کے لۓ قربانی کے جانور ذبح کیا کرتے تھے وہاں پہنچے دیکھا ایک سیاہ رنگ کا کوا وہاں چونچیں مار رہا ہے کھدائ شروع کردی یہاںتک کہ وہ ایک ایسی تہ تک پہنچ گۓ جس سے کامیابی کے امکانات روشن ہوگۓ آپ نے فرط مسرت سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا -آپ نے سونے کے ہرنوں کوگلا کر سونے کے پترے بنواۓاور کعبہ شریف کے دروازے پر منڈہ دۓ -
                                                                     (الکامل لابن اثیر)


اصحاب فیل کا واقعہ

اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیاحضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ "ابرہہ " ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لۓ مکہ پر حملہ آور ہوا تھا - اسکا سبب یہ تھا کہ " ابرہہ " نے یمن کے دارالسلطنت "صنعاء " میں ایک بہت ہی شاندار اور عالیشان گرجا گھر بنایا - اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجاۓ خانہ کعبہ کے یمن آکر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں - جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ کنانہ کا ایک شخص غیظ و غضب میں یمن گیا اور وہاں کے گرجا گھروں میں پاخانہ کرکے اسکو نجاست سے لت پت کر دیا - جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو طیش میں آپے سے باہر ہوگیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لۓ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کردیا - اور اسکی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا - اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے -
                                       (زرقانی)


نور نبوت کا جاہ وجلال

عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا - چنانچہ آپ اس معاملے میں گفتگو کرنے کے لۓ اس لشکر میں تشریف لے گۓ - جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لۓآیا ہے تو اس نے آپکو خیمہ میں بلالیا - اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ، رعب دار نہایت ہی حسین وجمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورنبوت کا جاہ و جمال چمک رہا ہے - تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہوگیا - اور بے اختیار تخت شاہی سے اتر کرآپ کی تعظیم و تکریم کے لۓ کھڑا ہوگیا - اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ " کہیے سردار قریش ! آپکی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے ؟ "
عبد المطلب نے جواب دیا کہ "کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپکے لشکر کے سپاہی ہانک لاۓ ہیں - آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجۓ "- یہ سن کر ابرہہ نے کہا "اے سردار قریش ! میں تو سمجھتا تھا کہ آپ تو بہت ہی حوصلہ مند اور شا ندار آدمی ہیں مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظرمیں اپنا وقار کم کردیا - اونٹ اور بکری کی حیثیت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لۓ آیا ہوں آپ نے اسکے بارے میں کوئ گفتگو نہیں کی "- عبدالمطلب نے کہا " مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ھے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے وہ خوداپنے گھر کو بچا لے گا مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے"-


"ابرہہ کا فرعونی لہجہ"

یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجے میں کہنے لگا کہ " اے سردار مکہ! سن لیجیۓ میں کعبہ کو ڈھا کر اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا - اور روۓ زمین سے اسکا نام ونشان مٹا دوں گا - کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے - اس لۓ میں اسکا انتقام لینے کے لۓ کعبہ مسمار کردینا ضروری سمجھتا ھوں -" عبدالمطلب نے فرمایا کہ "پھرآپ جانے اور خدا جانے میں آپ سے سفارش کرنے والا کون ؟ " اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کردینے کا حکم دے دیا - اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آۓ - اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کرمکہ سے باہر نکل جا ؤ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو -

"حضرت عبدالمطلب کی گریہ وزاری"

مکہ والوں سے یہ کہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گۓ اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائ بے قراری اور گریہ وزاری کے ساتھ دربار باری میں اسطرح دعا مانگنے لگے کہ

"اے اللہ بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ھے لہذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما - اور صلیب والوں اور صلیب کے پجاریوں (عیسائیوں) کے مقابلے میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما -"

عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گۓ اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے- 


"ابرہہ کا ہاتھی بیٹھ گیا"

ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لۓ اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام مغمس میں پہنچا تو خود اسکا ہاتھی جسکا نام محمود تھا ایک دم بیٹھ گیا اور ھر چند مارا بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا -

"ابابیلوں کا حملہ"

اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ھوۓ - اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جنکی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں - سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے - ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوج پر اس زور شور سے سنگ باری شروع کردی کہ آن کی آن میںابرہہ کے لشکر اور اسکے ہاتھیوں کے پرخچے اڑگۓ - ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار وجبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئ کنکری کسی فیل سوار کے سر پر پڑتی تو اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ھوئ ہاتھی کے بدن سے پار ہوجاتی - ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اسکے ہاتھیوں سمیت اسطرح ہلاک اور برباد ہوگۓ کہ انکے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پربکھر گئیں - 

چنانچہ قرآن مجید کی سورہ فیل میں اللہ تعالٰی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ھوۓ ارشاد فرمایا

اَ لَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَ صْحٰبِ ا لْفِیْلِ ہ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فَیْ تَضْلِیْلٍ ہ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ ہ تَرْمِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ہ فَجَعَلَھُمْ  کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ ہ 


یعنی (اے محبوب) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا ؟ کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا ؟ اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چباۓ ہوۓ بھس جیسا بنا ڈالا -

جب ابرہہ اور اسکے لشکروں کا انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا - انکی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیا اور تمام اہل عرب انکو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے
                               (سیرت مصطفیٰ ﷺ)

یہ واقعہ یکم محرم کو پیش آیا  اور یہی وہ مبارک سال ہے جس میں فخر آدم و بنی آدم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئ - 


سید محمود آلوسی فرماتے ہیں -

" حضرت عبدالمطلب کے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں اور آپ کے خدوخال سے خیروبرکت کے آثار نمایاں ہوتے تھے وہ اپنی اولاد کو سرکشی اور ظلم سے منع کرتے تھے مکارم اخلاق کو اپنانے کی انہیں ترغیب دیتے تھے - اور گھٹیا کاموں سے انہیں روکتے تھے آپ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی - آپ نے اپنے اوپر شراب کو حرام کردیا تھا وہ پہلے شخص ہیں جو غار حراء میں جاکر مصروف عبادت ہوا کرتے تھے جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے حراء میں تشریف لے جاتے مسکینوں کو کھانا کھلاتے آپ کے دسترخوان سے پرندوں اور وحشی درندوں کے لۓ بھی خوراک مہیا کی جاتی تھی آپ کے جسم اطہر سے خا لص کستوری کی خوشبو آتی تھی قریش کو جب قحط کی مصیبت گھیر لیتی تو وہ آپ کے وسیلہ سے بارش طلب کرتےاور اللہ تعا لیٰ انکی برکت سے موسلا دھار بارش برساتا -"
                                                                                            (بلوغ الارب)






Monday, December 1, 2014

ھا شم

0 comments

ہا شم


عبد مناف کے چار بیٹے تھے - ہاشم - مطلب - عبد شمس - نوفل
ھاشم اور انکے بھائیوں کو المجیرون یعنی پناہ دینے والے کہا جاتا - کیونکہ یہ لوگ اپنی سخاوت اور سیادت کے باعث سارے عرب کے لۓ بہترین پناگاہ تھے - 
ایک دفعہ قحط سالی کے باعث شدید فاقہ تک نوبت پہنچ گئ لوگوں کو کئ کئ روز تک کھانے کے لۓ کچھ میسر نہ آتا - ہاشم مکہ سے شام گۓ وہاں سے آٹا اور کعک خریدا اور حج کے ایام میں لدے ہوے اونٹوں کے ساتھ مکہ واپس آۓ - روٹیاں پکائ گئیں - اونٹ قطار در قطار ذبح ہوتے رہے انکے گوشت کو پکایا گیا سالن کے شوربے میں روٹیاں کوٹ کوٹ کر ڈالی گئیں اور ثرید بنا یا گیا تمام لوگوں کے لۓ دستر خوان بچھا دیا گیا اور سب کو کھانے کی دعوت دی گئ - سب نے خوب کھا یا یہاں تک کہ سیر ہوگۓ اس وجہ سے آپ کو ہاشم کہا جانے لگا - ہاشم کا معنی ھے روٹیاں توڑ توڑ کر شوربے میں ملانے والا - 
آپ کو ابوالبطحاء اور سید البطحاء بھی کہا جاتا - عسر و یسرمیں انکا دسترخوان مہمانوں کے لۓ بچھا رہتا -
حضرت ہاشم کا ایک خطبہ جو فصاحت و بلاغت کے علاوہ حکیمانہ اقوال کا مرقع ہے پیش خدمت ہے - اسکے مطا لعہ سے حضرت ہاشم کی بلند نظری اور قوم کی اصلاح و فلاح کے لۓ انکے حکیمانہ انداذ فکر کی گہرائیوں اور وسعتوں کا اندازہ ہوگا اور ان مکارم اخلاق کا بھی علم ہوگا جو انکی ذات سے متصف تھے - 

قریش اور خزاعہ کے دو قبیلے انکی خدمت میں حاضر ہوۓ اور باہمی منافرت میں ان سے فیصلہ چاہا کہ بجاۓ اسکے کہ آپ ایک قبیلہ کے فضائل بیان کرتے اور دوسرے کی کمزوریوں اور رذائل کا ذکر کرتے - آپ نے بڑے نرالے انداز سےانکے منتفر دلوں کو جوڑنے کی اور اخوت و محبت کے رشتہ میں پرونے کی کوشش فرمائ -

" اے لوگوں ! ہم آل ابراھیم ہیں اولاد اسماعیل ہیں نضر بن 

کنانہ کے فرزند ہیں قصی بن کلاب کے بیٹے ہیں اور مکہ کے 

مالک ہیں اور حرم میں رہنے والے ہیں - حسب کی بلندی اور

بزرگی کی پختگی ہمارے لۓ ہے - جس نے کسی کے ساتھ 

دوستی کا معا ہدہ کیا ہے اسکی مدد ضروری ہے - اور اگر وہ 

پکارے تو اسکو لبیک کہنا لازمی ہے بجز اسکے کہ اسکی 

دعوت اپنے قبیلہ سے سرکشی اور قطع رحمی کی ہو - 

اے قصی کے بیٹوں ! تم اس طرح ہو جس طرح درخت کی دو 

ٹہنیاں ہوتی ہیں اگر ان میں سے ایک ٹوٹ جاۓ تو دوسری بھی 

وحشت اور نقصان سے دوچار ہوتی ہے تلوار کی حفاظت 

اسکی نیام ہی سے ہو سکتی ہے جو آدمی اپنے قبیلہ پر تیر 

اندازی کرتا ہے وہ خود بھی اپنے تیر کا نشانہ بنتا ہے

اے لوگوں ! حلم اور بردباری بزرگی ہے صبر کامیابی کی کلید 

ہے - اچھائ ایک خزانہ ہے اور سخاوت سرداری ہے اور 

جہالت کمینگی ہے - دن بدلتے رہتے ہیں زمانہ تغیر پذیر رہتا 

ہے اور ہر انسان کو اپنے کام کی طرف منسوب کیا جاتا اور 

اپنے عمل کے باعث اس سے باز پرس کی جاتی ہے- اچھے 

کام کرو لوگ تمہاری تعریف کریں گے فضول باتوں سے دامن 

کش رہو - بے وقوف لوگ تم سے علیحدہ رہیں گے - اپنے ہم 

نشین کی عزت کرو تمہاری مجلسیں آباد رہیں گی اپنے شریک 

کار کی حفاظت کرو لوگ تمہاری پناہ لینے کے مشتاق ہونگے 

- اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرو - تم پر اعتماد کیا جاۓ 

گا - مکارم اخلاق کی پابندی کرو کیونکہ اس میں تمہاری بلندی 

ہے اور کمینہ عادتوں سے دور رہو کیونکہ اس سے عزت 

خاک میں مل جاتی ہے اور نا موری کا قصر منہدم ہو جاتا ہے -"

                                  ( اعلام النبوۃ الما دردی )

حضرت ہاشم کی عمر ابھی پچیس سال کے قریب تھی - آپ کا عنفوان شباب تھا آ پ اپنے تجارتی کارواں کو لے کر شام کے علاقہ میں گۓ وہیں بیمار ھوۓ اور وفات پائ آپکا مزار غزہ شہر میں ہے -