Sunday, November 2, 2014

مُضَر

0 comments
مُضَر

آپکی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے 

لانہ کان یمضر القلوب ای یاخذھا لحسنہ و جمالہ ولم یرہ احد الا احبہ لما کان یشاھد فی وجھہ من نور النبی 

"یعنی یہ اپنے حسن وجمال کی وجہ لوگوں کو اپنا شیدائ بنا لیتے تھے جوشخص بھی ان کو دیکھتا تھاان پر فریقتہ ہو جایا کرتا تھا - کیونکہ ان چہرے پر بھی نور مصطفوی ﷺ کے جلوے ضوفشاں ہوا کرتے تھے "-

(السیرۃ النبویہ )

مُضَر کے حکیمانہ اقوال


  • بہترین بھلائ وہ ہے جو فوراً کی جاۓ
اپنے نفسوں کو مشکل باتوں کا خوگر بناؤ اور ہوا و ہوس سے انکا رخ پھیرے رکھو-

فہم و فراست

یہ چار بھائ تھے -مضر ، ربیعہ ، ایاد ، انمار- انکے والد نزار جب فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی اے میرے بیٹوں! یہ سرخ رنگ کا قبہ اور اس سے متعلقہ چیزیں ایاد کی ہیں - ندوہ ' مجلس اور اس سے متعلقہ چیزیں انمار کی ہیں اگر کسی بات پر تم میں اختلاف پیدا ہو تو تصفیہ کے لۓ نجران کےافعیٰ جرہمی کے پاس جانا ااور اس سے اپنے جگھڑے کا فیصلہ طلب کرنا -
اتفاق سے تقسیم جائداد میں باہمی اختلاف پیدا ہو گیا باپ کی وصیت کے مطابق وہ نجران روانہ ہوۓ تاکہ افعیٰ جرہمی سے اس تنازعہ کا فیصلہ کرائیں- اثناۓ سفر مضر نے گھاس دیکھی جس کو کسی اونٹ نے چرا تھا کہنے لگے جس اونٹ نے اس گھاس کو چرا ھے وہ کانا ھے - ربیعہ نے کہا وہ لنگڑا ھے -ایاد نے کہا وہ دم بریدہ بھی ھے - انمار نے کہا وہ بھاگا ھوا ھے
                اس گفتگو کے بعد وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے کجاوہ سر پر اٹھایا ھوا تھا اس نے ان سے اپنے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا مضر نے کہا کیا وہ کانا ھے اس نے کہا ھاں- ربیعہ نے کہا کیا وہ لنگڑا ھے اس نے کہا ھاں - ایاد نے کہا کیا وہ دم کٹا ھے اس نے کہا ھاں- انمار نے کہا کیا وہ بھاگا ھوا ھے اس نے کہا ھاں - خدارا مجھے بتائیں میرا اونٹ کہاں ھے ؟ انہوں نے کہا بخدا ھم نے اس کو نہیں دیکھا بدو نے کہا یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ دیکھے بغیر اس کے سارے نشانات بتادیے ھیں وہ بھی انکے ساتھ چل پڑا کہ افعیٰ سے اپنے اونٹ کا فیصلہ کراۓ -
                       جب اسکے پاس پہنچے تو سب سے پہلے اونٹ کے مالک نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ ان لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ھے لیکن مجھے بتاتے نہیں - کہتے ھیں ھم نے دیکھا ھی نہیں افعیٰ نے ان سے پوچھا اگر آپ لوگوں نے اسے دیکھا نہیں - تو اسکی ساری نشانیاں کیسے گنوادیں ھیں
مضر نے کہا میں نے جب اس گھاس کو دیکھا جسکو اس نے چرا ھے تو وہ اہک طرف سے چری ھوئ تھی دوسری طرف سے جوں کی توں لہلہا رھی تھی میں نے سمجھ لیا کہ وہ کانا ھے جو دیکھا ھے اسے چر لیا اور دوسری طرف جو اس نے نہیں دیکھی چھوڑ دی-
ربیعہ نے کہا کہ اس کے ایک پاؤں کے نشان با لکل واضح  تھے دوسرے پاؤں کے نشان ادھورے تھے میں نے سمجھ لیا کہ یہ لنگڑا ھے -
ایاد نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی مینگنیاں صحیح سالم ھیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کی دم کٹی ھوئ ھے ورنہ اس کی مینگنیاں ٹوٹی ھوئ ھوتیں
انمار نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس نے گنجان گھاس چرنے کے لۓ منہ ڈالا ھے لیکن اسے ادھورا چھوڑ کر آگے نکل گیا ھے میں نے سمجھا کہ وہ بھاگا ھوا ھے اس لۓ اطمینان سے گھاس کو نہیں چر رھا-
                      یہ سن کر جرھمی نے اونٹ کے مالک سے کہا کہ جاؤ اپنا ااونٹ تلاش کروانکے پاس تمہارا اونٹ نہیں ھے پھر اس نے پوچھا آپ لوگ کون ھیں اور کیوں آۓ ھیں ؟ انہوں نے کہا ھم نزار بن معد کے فرزند ھیں اور اپنے باہمی جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لۓ تمہارے پاس آۓ ھیں اس نے کہا بڑے تعجب کی بات ھے اس فہم وذکا کے مالک ھوتے ھوۓ آپ میرے پاس آۓ ھیں پھر اس نے انکی پرتکلف دعوت کی - آخر میں شراب پیش کی کھانے پینے سے فارغ ھوۓ تو مضر نے کہا ایسی بہترین شراب عمر بھر کبھی نہیں پی کاش! اسکے انگور کی بیل قبر پر نہ اُگی ھوتی -
ربیعہ نے کہا ایسا لذیذ گوشت آج تک نہیں کھایا کاش! اس بکری کی پرورش کُتّی کے دودھ سے نہ کی گئ ھوتی -
ایاد نے کہا میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا کاش! اس کی نسبت غیر باپ کی طرف نہ کی گئ ھوتی -
انمار نے کہا میں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی جو ھمارے مقصد کے لۓ مفید ھو-
                          جرھمی نے انکی باتیں سنیں اور تصویرحیرت بن کر رہ گیا وہ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا سچ بتاؤ میں کس کا بیٹا ھوں ؟ اس نے بتایا کہ میں ایک سردار کی منکوحہ تھی وہ لاولد تھا میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ لاولد مرجاۓ چنانچہ میں نے ایک شخص سے بد فعلی کی جس سے تو پیدا ھوا اس نے اپنے ناظم مطبخ سے شراب کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا کہ میں نے تیرے باپ کی قبر پر انگور کی ایک بیل لگائ تھی اس کے انگوروں سے یہ شراب کشید کی گئ اس نے اپنے چرواھے سے گوشت کے بارے میں دریافت کیا اس نے بتایا کہ بکری نے بچہ جنا اور مرگئ میں نے اس بچہ کی پرورش کُتّی کے دودھ سے کی جرھمی ان کی ذھانت اور فطانت دیکھ کرحیران رہ گیا پھر اس نے دعویٰ سنا اور اسکا فیصلہ دیا -
          اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اللہ کریم نے اپنے روؤف رحیم نبی کے اجداد کو جمال صورت ، حسن صورت کے ساتھ فہم وفراست کا وہ بے پایاں ملکہ عطا فرمایا تھا جسے دیکھ کر زمانہ کے دانش ور پھڑک اُٹھتے تھے -

                              (اعلام النبوۃ المادردی ،  تاریخ طبری)

حدیث مبارکہ

  •  ربیعہ اور مضر کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ دونوں مومن تھے

  • مضر کو برا بھلا نہ کہو وہ حضرت اسماعیل کے دین پر تھا -   
                          (السیرۃ النبو یہ)                    

نننننن

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔