Wednesday, December 3, 2014

عبد ا لمطلب

0 comments

عبد ا لمطلب

عبد مناف کے چار بیٹے تھے سب سے بڑے کا نام ہاشم تھا اور سب سے چھوٹے کا نام مطلب تھا - ہاشم کی شادی یثرب کے قبیلہ بنی نجار کے سردارعمر بن لبید الخزرجی کی صاحبزادی سلمیٰ کے ساتھ ھوئ - جب بچہ پیدا ہوا تو اسکے سرکے بالوں میں چند سفید بال تھے اس لۓ انکا نام شیبہ (بوڑھا) تجویز ہوا ہاشم پھر تجارتی کارواں کے ہمراہ شام گۓ وہیں انکی وفات ھوئ -
شیبہ اور انکی والدہ سلمیٰ تقریباً سات سال تک یثرب(مدینہ) میں رہے - پھر انکے چچا مطلب دونوں ماں بیٹے کو لینے مدینہ روانہ ہوۓ سلمیٰ نے خود آنے سے انکار کردیا لیکن بیٹے کے مستقبل کی خاطر بچہ کو مکہ بھیجنے پر رضامند ہو گئیں -


"وجہء تسمیہ"

مطلب نے اپنے بھتیجے شیبہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا اور مکہ کے لۓ روانہ ہوگۓ مکہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا بڑے بڑے رئیس اپنی اپنی مجلسیں جماۓ بیٹھے تھے جب مطلب انکے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ آپ نے جواب دیا یہ میرا غلام ھے - گھر پہنچے بیوی نے بچہ کے بارے میں استفسار کیا تو اسے بھی یہی جواب دیا کہ یہ میرا غلام ھے - اسطرح شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوگۓ پھر مطلب نے بچہ کو نہلایا نیا لباس پہنایا اور لوگوں کو بتایا کہ یہ میرے بڑے بھائ ہاشم کا لخت جگر ہے لیکن عبدالمطلب کے نام کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئ کہ عمر بھر اسی نام سے پکارے جاتے رہے - شیبہ جو انکا اصلی نام تھا اسکی طرف کسی نے توجہ نہ دی -


"چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائ"

بنوجرہم کو بنو خزاعہ نےجب مکہ سے جلاوطن کیا تو انہوں نے بیت اللہ شریف کے اندر سونے کے جو دو ہرن آویزآں تھے اور تلواریں ، زرہیں اور دیگر قیمتی سامان - وہ سب زمزم کے کنوئیں میں پھینکا پھر اسکو مٹی سے بھر دیا تاکہ بنو خزاعہ وغیرہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں - چنانچہ سینکڑوں سال زمزم بند رہا - حتیٰ کہ لوگوں کے ذہنوں سے اسکی یاد اور اسکی اہمیت محو ہوگئ - لوگ مکہ کے دوسرے کنوؤں سے اپنی ضروریات پوری کرنے لگے -
ایک روز عبدالمطلب حطیم میں سورہے تھے کسی نے خواب میں آکر کہا احفر طیبہ - طیبہ کو کھودو انہوں نے پوچھا - طیبہ کیا ہے تو کہنے والا غائب ہوگیا - دوسری رات پھر جب وہ اپنے بستر پر آکر لیٹے آنکھ لگی تو اس شخص نے پھر کہا احفر برہ - برہ کو کھودو - آپ نے پوچھا برہ کیا ھے تو پھر وہ غائب ھوگیا تیسری رات پھرخواب میں آواز آئ احفرمضنونہ - مضنونہ کو کھودو - آپ نے پوچھا مضنونہ کیا ہے وہ پھرغائب ہوگیا - جب چوتھی رات آئ اور وہ اپنی خواب گاہ میں آرام کرنے کے لۓ لیٹے تو آنکھ لگتے ہی آواز آئ احفر زمزم ، زمزم کو کھودو - آپ نے پوچھا زمزم کیا ہے؟ آج اس شخص نے تفصیلات بتاتے ہوۓ کہا - 

" زمزم تیرے پدر نامور کی میراث ہے - یہ چشمہ نہ اسکا پانی ختم ہوتا ہے اور نہ اسکی مرمت کی جاتی ہے -اس سے حجاج کرام کو سیراب کیا جاتا ہےیہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں کالا کوا چونچیں مار رہا ھے - چیونٹیوں کی بستی کے با لکل قریب - "

جب تفصیلات کا علم ہوگیا تو دوسرے روز آپ اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ کدال لے کر (اس وقت انکا یہی ایک بیٹا تھا ) آگۓ اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں مشرکین بتوں کے لۓ قربانی کے جانور ذبح کیا کرتے تھے وہاں پہنچے دیکھا ایک سیاہ رنگ کا کوا وہاں چونچیں مار رہا ہے کھدائ شروع کردی یہاںتک کہ وہ ایک ایسی تہ تک پہنچ گۓ جس سے کامیابی کے امکانات روشن ہوگۓ آپ نے فرط مسرت سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا -آپ نے سونے کے ہرنوں کوگلا کر سونے کے پترے بنواۓاور کعبہ شریف کے دروازے پر منڈہ دۓ -
                                                                     (الکامل لابن اثیر)


اصحاب فیل کا واقعہ

اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیاحضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ "ابرہہ " ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لۓ مکہ پر حملہ آور ہوا تھا - اسکا سبب یہ تھا کہ " ابرہہ " نے یمن کے دارالسلطنت "صنعاء " میں ایک بہت ہی شاندار اور عالیشان گرجا گھر بنایا - اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجاۓ خانہ کعبہ کے یمن آکر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں - جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ کنانہ کا ایک شخص غیظ و غضب میں یمن گیا اور وہاں کے گرجا گھروں میں پاخانہ کرکے اسکو نجاست سے لت پت کر دیا - جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو طیش میں آپے سے باہر ہوگیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لۓ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کردیا - اور اسکی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا - اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے -
                                       (زرقانی)


نور نبوت کا جاہ وجلال

عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا - چنانچہ آپ اس معاملے میں گفتگو کرنے کے لۓ اس لشکر میں تشریف لے گۓ - جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لۓآیا ہے تو اس نے آپکو خیمہ میں بلالیا - اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ، رعب دار نہایت ہی حسین وجمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورنبوت کا جاہ و جمال چمک رہا ہے - تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہوگیا - اور بے اختیار تخت شاہی سے اتر کرآپ کی تعظیم و تکریم کے لۓ کھڑا ہوگیا - اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ " کہیے سردار قریش ! آپکی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے ؟ "
عبد المطلب نے جواب دیا کہ "کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپکے لشکر کے سپاہی ہانک لاۓ ہیں - آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجۓ "- یہ سن کر ابرہہ نے کہا "اے سردار قریش ! میں تو سمجھتا تھا کہ آپ تو بہت ہی حوصلہ مند اور شا ندار آدمی ہیں مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظرمیں اپنا وقار کم کردیا - اونٹ اور بکری کی حیثیت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لۓ آیا ہوں آپ نے اسکے بارے میں کوئ گفتگو نہیں کی "- عبدالمطلب نے کہا " مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ھے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے وہ خوداپنے گھر کو بچا لے گا مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے"-


"ابرہہ کا فرعونی لہجہ"

یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجے میں کہنے لگا کہ " اے سردار مکہ! سن لیجیۓ میں کعبہ کو ڈھا کر اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا - اور روۓ زمین سے اسکا نام ونشان مٹا دوں گا - کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے - اس لۓ میں اسکا انتقام لینے کے لۓ کعبہ مسمار کردینا ضروری سمجھتا ھوں -" عبدالمطلب نے فرمایا کہ "پھرآپ جانے اور خدا جانے میں آپ سے سفارش کرنے والا کون ؟ " اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کردینے کا حکم دے دیا - اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آۓ - اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کرمکہ سے باہر نکل جا ؤ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو -

"حضرت عبدالمطلب کی گریہ وزاری"

مکہ والوں سے یہ کہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گۓ اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائ بے قراری اور گریہ وزاری کے ساتھ دربار باری میں اسطرح دعا مانگنے لگے کہ

"اے اللہ بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ھے لہذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما - اور صلیب والوں اور صلیب کے پجاریوں (عیسائیوں) کے مقابلے میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما -"

عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گۓ اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے- 


"ابرہہ کا ہاتھی بیٹھ گیا"

ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لۓ اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام مغمس میں پہنچا تو خود اسکا ہاتھی جسکا نام محمود تھا ایک دم بیٹھ گیا اور ھر چند مارا بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا -

"ابابیلوں کا حملہ"

اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ھوۓ - اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جنکی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں - سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے - ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوج پر اس زور شور سے سنگ باری شروع کردی کہ آن کی آن میںابرہہ کے لشکر اور اسکے ہاتھیوں کے پرخچے اڑگۓ - ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار وجبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئ کنکری کسی فیل سوار کے سر پر پڑتی تو اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ھوئ ہاتھی کے بدن سے پار ہوجاتی - ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اسکے ہاتھیوں سمیت اسطرح ہلاک اور برباد ہوگۓ کہ انکے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پربکھر گئیں - 

چنانچہ قرآن مجید کی سورہ فیل میں اللہ تعالٰی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ھوۓ ارشاد فرمایا

اَ لَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَ صْحٰبِ ا لْفِیْلِ ہ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فَیْ تَضْلِیْلٍ ہ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ ہ تَرْمِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ہ فَجَعَلَھُمْ  کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ ہ 


یعنی (اے محبوب) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا ؟ کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا ؟ اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چباۓ ہوۓ بھس جیسا بنا ڈالا -

جب ابرہہ اور اسکے لشکروں کا انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا - انکی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیا اور تمام اہل عرب انکو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے
                               (سیرت مصطفیٰ ﷺ)

یہ واقعہ یکم محرم کو پیش آیا  اور یہی وہ مبارک سال ہے جس میں فخر آدم و بنی آدم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئ - 


سید محمود آلوسی فرماتے ہیں -

" حضرت عبدالمطلب کے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں اور آپ کے خدوخال سے خیروبرکت کے آثار نمایاں ہوتے تھے وہ اپنی اولاد کو سرکشی اور ظلم سے منع کرتے تھے مکارم اخلاق کو اپنانے کی انہیں ترغیب دیتے تھے - اور گھٹیا کاموں سے انہیں روکتے تھے آپ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی - آپ نے اپنے اوپر شراب کو حرام کردیا تھا وہ پہلے شخص ہیں جو غار حراء میں جاکر مصروف عبادت ہوا کرتے تھے جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے حراء میں تشریف لے جاتے مسکینوں کو کھانا کھلاتے آپ کے دسترخوان سے پرندوں اور وحشی درندوں کے لۓ بھی خوراک مہیا کی جاتی تھی آپ کے جسم اطہر سے خا لص کستوری کی خوشبو آتی تھی قریش کو جب قحط کی مصیبت گھیر لیتی تو وہ آپ کے وسیلہ سے بارش طلب کرتےاور اللہ تعا لیٰ انکی برکت سے موسلا دھار بارش برساتا -"
                                                                                            (بلوغ الارب)






0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔