Sunday, December 14, 2014

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0 comments

حضرت عبد ا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

دنیا کا کوئ باپ آپ سے زیادہ خوش بخت اور بلند اقبال نہیں ہے آپ اس عظیم ہستی کے باپ ہیں جو با عث تکوین کا ئنات ہے اولین و آخرین انبیاء ، مرسلین اور انکی امتیں جسکے فیض سے فیض یاب ہیں جو شفیع المذنبین ھے - ایسی بے مثال و بے نظیر ہستی کے باپ کا نام عبداللہ ہے -

حضرت عبدالمطلب کی نذر

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے اور سب سے لاڈلے بیٹے تھے آپکے والد نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا کۓ اور سب جوان اور صحتمند ہو کر انکی تقویت کا باعث بنے تو وہ ان میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیں گے - جب سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ بیس سال کی ہوگئ تو اب انہیں اپنی نذر ایفاء کرنے کا خیال آیا - آپ نے اپنے فرزندوں سے اس بات کا تذکرہ کیا تمام بیٹوں نے سعادت مندی سے سر جھکا دۓ -
طے پایا کہ بیت ا للہ شریف کے فال نکالنے والے سے فال نکالی جاۓ جس کے نام کا قرعہ نکلے اسکو راہ خدا میں قربان کر دیا جاۓ - سب مل کر بیت اللہ شریف کے پاس جمع ہوۓ فال نکالنے والے کو بلایا گیا صورت حال سے اسے آگاہ کیا گیا وہ فال کے تیر نکال کر لے آیا اور فال نکالنے کی تیاری کرنے لگا کسی ایک بچہ کا نام ضرور نکلے گا - آپ کے سارے بچے شکل و صورت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے - کسی ایک کے گلے پر چھری ضرور پھیری جاۓ گی لیکن عبدالمطلب پہاڑ کی چٹان بنے کھڑے ہیں - ان کے ارادے میں کسی لچک کا دوردور تک نشان نہیں - اپنے رب سے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کریں گے -


قرعہ کس کے نام نکلا ؟

فال نکا لنے والے نے فال نکالی قرعہء فال حضرت عبداللہ کے نام نکلا - یہ درست ہے کہ عبداللہ بہت حسین ہیں بوڑھے باپ کے یہ سب سے چھوٹے بیٹے ہیں اور سب بھائیوں سے زیادہ وہ انہیں محبوب ہیں - لیکن یہاں معاملہ عبدالمطلب اور اسکے خدا کا ہے - اس میں کوئ پیاری سے پیاری چیز حائل نہیں ہوسکتی اگر اسکے خالق نے قربانی کے لۓ عبداللہ کو پسند فرمایا ہے تو عبداللہ کو اسکی رضا کے لۓ ضرور قربان کیا جاۓ گا - 
چھری لائ جاتی ہے عبداللہ کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے لۓ حضرت عبدالمطلب آستین چڑھارہے ہیں اسکی اطلاع مکہ کے ہرگھر میں گونجنے لگتی ہے - مکہ کے سردار کہتے ہیں عبداللہ انکے سامنے ذبح کردیا جاۓ ایسا ہرگز نہیں ہوگا - وہ منت سماجت پر اتر آۓ کہ 
" اے ہمارے سردار! اگر بیٹوں کو ذبح کرنے کی رسم کا آغاز تمہاری جیسی ہستی نے کردیا تو پھر اس رسم کو بند کرنا کسی کے بس کا روگ نہ رہے گا اپنی قوم کے نونہالوں پر رحم کرو "-

آخر کیا حل نکالا گیا؟

طویل کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ حجاز کی عرافہ کے پاس جاتے ہیں-وہ جو فیصلہ کرے اسکو وہ سب تسلیم کریں گے - وہاں جاتے ہیں اسکو اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہیں 
وہ کہتی ہے مجھے ایک دن کی مہلت دومیرا تابعی آۓ گا تو میں اس سے پوچھ کر بتاؤں گی دوسرے روز پھر اسکے پاس جاتے ہیں وہ کہتی ہے میرا تابعی آیا تھا میں نے تمھارے سوال کے بارے میں اس سے پوچھا تھا اس نے اسکا حل مجھے بتایا ہے پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمھارے ھاں مقتول کی دیت کیا ہے انہوں نے بتایا دس اونٹ - اس نے کہا تم اپنے وطن واپس جاؤاور---------------
ایک طرف دس اونٹ کھڑے کر دینا اور دوسری طرف عبداللہ - پھر فال نکالنا - اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا توان کو ذبح کردینا تمہاری نذر ادا ہوجاۓ گیا اور اگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلے تو پھر دس دس اونٹ بڑھاتے جانا اور قرعہ نکالتے جانا یہاں تک کہ قرعہ عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں کے نام نکلے جتنے اونٹوں پر قرعہ نکلے انکو ذبح کردینا یوں تمہاری نذر پوری ہوجاۓ گی- 
سارا کارواں عرافہ کے اس فیصلہ کو سن کر مکہ واپس آگیا اور اسکے کہنے کے مطابق قرعہ اندازی شروع کردی - دس اونٹوں کے وقت بھی قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا - دس دس اونٹ بڑھاتے گۓ لیکن ہر بار قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئ - اس وقت قرعہ اندازی کی گئ تو حضرت عبداللہ کے بجاۓ سو اونٹوں پر قرعہ نکلا -
حضرت عبدالمطلب کو بتایا گیا تو آپ نے کہا تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار ااونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو تسلیم کرونگا ورنہ نہیں- 
عالم انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا چنانچہ وہ سو اونٹ ذبح کردۓ گۓ اور اعلان عام کیا گیا کہ انکے گوشت کو جو چاہے جتنا چاہے لے جاۓ کسی کو روکا نہ جاۓ یہاں تک کہ گوشت خور پرندے اور درندے کو بھی انکا گوشت کھانے سے منع نہ کیا جاۓ 


حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح


حضرت عبدالمطلب کی خواہش تھی کہ اپنے نیک بخت بیٹے کی شادی کی خوشی منائیں اور ایسی دلہن بیاہ کر لائیں جو اپنے دولہا کی طرح خصائل وشمائل میں اپنی نظیر نہ رکھتی ہو - آپ کی حقیقیت شناس نگاہ نے قریش کے بنو زہرہ خاندان کے سرداروھب بن عبد مناف بن زہرہ کی نور نظر حور شمائل لخت جگر آمنہ کا انتخاب کیا - آپ وھب کے گھر تشریف لے گۓ اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی بچی آمنہ کا رشتہ ان کے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ کے لۓ دیں -
وھب نے حضرت عبدالمطلب کی خواہش کے مطابق حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبداللہ کو دینا منظور کر لیا پھر جلد ہی تقریب نکاح انجام پذیر ہوئ اور آپ اپنے عظیم القدر سسر کے زیر سایہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں -


حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال


حضرت عبدالمطلب کا پیشہ تجارت تھا - آپ کی کو ششوں کے طفیل مکہ کے تجارتی کاروانوں کو شام ، فلسطین وغیرہ ممالک میں آمدورفت کی اجازت ملی تھی چنانچہ حضرت عبدالمطلب کے تجارتی سامان سے لدے ھوۓ اونٹ ان ممالک میں آیا جایا کرتے تھے شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ کو اپنے والد کے ایک تجارتی قافلہ کی نگرانی کرنے اور کاروباری ذمہ داریاں انجام دینے کے لۓ ملک شام جانا پڑا - 
تجارتی مصروفیتوں سے فراغت پانے کے بعد جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ واپس آنے کے لۓ روانہ ھوۓ تو راستہ میں بیمار ہوگۓ قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئ اس لۓ وہ اپنے ننہال میں رک گۓ تاکہ طبیعت سنبھلے تو سفر شروع کریں - دوسرے ساتھی واپس لوٹ آۓ آ پ ایک ماہ وہاں بیمار رہنے کے بعد واصل بحق ہوگۓ -

               اِ نٌَا  لِلٌٰہِ  وَ  اِ نٌَا  اِ لَیْہِ  رَا جِعُوْن

انکی اچانک وفات سے سب کو ضرور صدمہ ہوا ہوگا لیکن حضرت آمنہ کے دل پر جو قیامت ٹوٹی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتی ہیں -
                 ( ضیا ء النبی ﷺ )

در یتیم ﷺ


حبیب کبریاء ﷺ ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا لیا گیا اور آپ یتیم ہوکر رہ گۓ

علامہ احمد بن زینی دحلان رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں -

"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائ تو فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی اے ہمارے اللہ ! اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہوگیا اسکا باپ نہ رہا - اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ہم اسکے حافظ اور مددگار ہیں -
دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں اسکا دوست ہوں ، نگہبان ہوں ، مددگار ہوں ، پروردگار ہوں ، اسکی مدد کرنے والا ہوں اسکو رزق دینے والا ھوں اور ہر بات میں اسکے لۓ کافی ہوں - پس تم اس پر درود پڑھا کرو اور اسکے نام سے برکت حاصل کیا کرو -"

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 
پو چھا گیا

کہ نبی کریم ﷺ کو یتیم پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ آپ نے فرمایا اسکی متعدد حکمتیں ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہے تاکہ کسی مخلوق کا حق آپ پر نہ رہے - یعنی وہ حقوق جو بالغ ہونے کے بعد کسی پر انکی ادائیگی لازم ہوتی ہے - آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی اس وقت انتقال فرما یا جب کہ حضور ﷺ کی عمر مبارک صرف چھ سال تھی نیز یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ معزز وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت عطا فرماۓ - نیز آپ کی قوت آپکے آباءواجداد اور ماؤں کے ذریعہ سے نہیں اور نہ مال کے ذریعہ سے بلکہ آپکی قوت و طاقت کا راز اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے - اور اسکی حکمت یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو جب یتیمی کا ذاتی تجربہ ہوگا تو حضور ﷺ فقیروں اور یتیموں پر رحم فرمائیں گے - 

                          ( السیرۃ النبویہ )


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔