Wednesday, November 26, 2014

قُصی

0 comments

قُصی

             انکا نام زید تھا 400ء کے لگ بھگ پیدا ھوۓ -
      یہ قبیلہ قریش کے عالم تھے اور انکو راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی تاکید کرتے رہتے یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کرتے اس وقت اس دن کو یوم العروبہ کہا جاتا تھا - انہیں وعظ و نصیحت کرتے اور انہیں آگاہ کرتے کہ عنقریب ان میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ھے جب وہ تشریف لاۓ تو اس کی دعوت کو قبول کرنے میں پس و پیش نہ کرنا فوراً اس پر ایمان لے آنا - اگرچہ عمر بن لُحّی الخزاعی کی بد بختی کے باعث اصنام پرستی کی بیماری اہل مکہ اور اہل عرب میں بھی قبول عام حاصل کر چکی تھی لیکن آپ اپنے خطبات میں اپنی قوم کو اصنام پرستی سے باز رینے کی تلقین کرتے -

                       (بلوغ الارب )

           انکا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی انکو قصی کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب انکے والد کلاب انتقال کر گۓ تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ فاطمہ بنت سعد اور دو بچے چھوڑے بڑے بچے کا نام زہرہ تھا - دوسرے یہ زید تھے جو اس وقت بہت کم سن تھے - ربیعہ بن حرام بن ضبہ نے انکی والدہ فاطمہ کے ساتھ نکاح کر لیا جب وہ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر وطن لوٹنے لگا تو بڑے بھائ زہرہ کو مکہ میں چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ جوان ھو رہے تھے اور زید کو کم سنی کی وجہ سے پیچھے چھوڑنا گوارا نہ کیا اپنے وطن " عزرہ " جو شام کی سرحد کے قریب ھے واپس جانے لگا تو زید کو ساتھ لے گیا - 
                         آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائ سال اسی علاقے میں گزارے ایک روز بنی قضاعہ کے کسی لڑکے نے انہیں غریب الوطنی کا طعنہ دیا جسے سن کر آپ کو بڑا دکھ ھوا اور افسردہ خاطر ھوکر اپنی ماں کے پاس آۓ اور ان سے حقیقت حال دریافت کی - ماں نے کہا بیٹا آزردہ ھونے کی کیا بات ھے تو ایسے خاندان کا چشم و چراغ ھے جسکی سارے عرب میں عزت و تکریم کی جاتی ھے - تو اپنی ذات اور نسب کے اعتبار سے یہاں کے سب لوگوں سےاعلیٰ و ارفع ھے - تو قریش کے مشہور سردار کلاب بن مرہ کا بیٹا ھے تیرا قبیلہ مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ھے 
                                  انہوں نے کہا ماں ، میں اب یہاں نہیں رہ سکتا مجھے اجازت دو کہ میں اپنے قبیلہ والوں کے پاس چلا جاؤں مجھ سے غریب الوطنی کے طعنے نہیں سنے جاسکتے ماں نے کہا بیٹا تھوڑی دیر انتظار کرو جب حج کے مہینے آجائیں گے یہاں سے حجاج کو جو قافلہ جاۓ گا انکی معیت میں مکہ چلے جانا - سلامتی سے اپنے وطن پہنچ جاؤگے چنانچہ جب حج کا موسم آیا تو یہاں کے حا جیوں کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ھو گۓ

              کیونک آپکے بچپن کا سارا زمانہ اپنے وطن سے بہت دور گزرا تھا اس لۓ یہ قصی " دور افتادہ " کے نام سے مشہور ھوگۓ

                        (طبقات ابن سعد )

                                   کعب بن لوئ کی اولاد سے قصی پہلا شخص ہے جسکو حکومت ملی - اور ساری قوم نے برضا و رغبت جسکی اطاعت قبول کی - قوم نے قصی کو حجابہ ، رفادہ ، سقایا ، ندوہ ، اور اللواء پانچوں مناصب سپرد کردۓ تھے -آئیں ھم دیکھتے ہیں کہ ان پانچوں منا صب سے کیا مراد ہے؟

"حجابہ"

                یہ ایک جلیل القدر منصب تھا اس سے مراد کعبہ شریف کی خدمت کے فرائض انجام دینا تھا - یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جس قبیلہ کو یہ منصب تفویض کیا جاتا بیت اللہ شریف کی کنجیاں بھی اسکے حوالے کر دی جاتیں - کعبہ کے دروازے کو کھولنا اور بند کرنا اسکی ذمہ داری ھوتی - کعبہ میں جو اما نتیں رکھی جاتیں نذرانے کے طور پرلوگ جو قیمتی تحائف ، زیورات وغیرہ پیش کرتے انکی حفاظت بھی اسی کی ذمہ داری ھوتی -

"رفادہ"

                قصی نے مکہ مکرمہ کی زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی قوم کو جمع کیا اورانکے سامنے تقریر کرتے ھوۓ کہا کہ حاجی اللہ کے مہمان اور اسکے گھر کے زائر ھوتے ھیں وہ ایسے مہمان ہیں جن کی ضیافت اور میزبانی ہمارا فریضہ ھے تم سب اپنے مالوں سے حصہ دو - تاکہ ایک ایسا اجتماعی فنڈ قائم کیا جاۓ جس سے ضیوف الرحمٰن کی عزت وتکریم اور انکی مہمان نوازی کی جا سکے - ساری قوم نے اس تجویز کو سراہا اور دل کھول کر اس میں مالی اعانت کی - چنانچہ ایام حج میں سارے حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام اس فنڈ سے کیا جاتا -
                            
                               (طبقات ابن سعد)

اسلام کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی عہد رسالت ، عہد خلفاۓ راشدین حتیٰ کہ بنی امیہ اور بنی عباس کی خلافتوں کے دور میں بھی حجاج کی ضیافت کا یہ سلسلہ جاری رہا - جب عباسی خلافت کا چراغ گل ہوا تو رفادہ کا یہ انتظام بھی درہم برہم ھوگیا -
                  (ضیا ء النبی ﷺ )

"سقایہ"

حجاج کو پانی پلانے کا منصب - حج کے موسم میں قریش پانی کے ذخائر جمع کرتے اور ان میں زبیب (کشمش ) ڈالتے جس سے پانی کا ذائقہ میٹھا ھو جاتا اور حج کے ایام میں تمام حاجیوں کو پینے کے لۓ یہ پانی پیش کیا جاتا - 

"ندوہ"

اسے آج کی اصطلاح میں پارلیمنٹ ہاؤس یا مجلس شوریٰ کہ سکتے ہیں دارالندوہ ایک وسیع عمارت تھی جس کا دروازہ حرم شریف میں کھلتا تھا اس میں اہل مکہ کے نمائندے جمع ہوتے اور پیش آمدہ سیاسی ، معاشی ، عمرانی مسائل کے بارے میں مشورے کرتے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے 
                        اسکی رکنیت کے لۓ بنیا دی شرط یہ تھی کہ کسی رکن کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہو - انکی سماجی تقریبات یہاں ہی انجام پذیر ھوتیں -
                                                 ( الروض الانف )

"اللواء"

اسے موجودہ دور کی وزارت دفاع کا ہم معنی کہ سکتے ھیں یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جب کوئ اجتماعی خطرہ درپیش ہوتا تو قومی علم کا علمبردار اسکو کھلے میدان میں گاڑ دیتا یہ گویا اسکی طرف سے اعلان ہوتا کہ اے اہل وطن ! اپنے وطن اور قوم کی آزادی کو جو خطرہ درپیش ہے اسکا تدارک کرنے کے لۓ سربکف میدان میں نکل آؤ - جب علم لہرانے کا واقعہ رونما ہوتا قریش کے سارے سرداربلا استثناء جمع ہوجاتے -
              عرب کے آزاد اور خودسر معاشرے میں ان اداروں کو قائم کرکے قصی نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا - اہل عرب کو نظم و ضبط کا پابند اور خوگر بنانے کے لۓ یہ پہلی کامیاب کوشش تھی - کعبہ کی جو عمارت سیدنا ابراھیم اور اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر کی تھی وہ زمانہ دراز گزر جانے کے باعث بوسیدہ ھو رہی تھی - قصی نے اسکو گراکر کعبہ کو ازسرنوتعمیر کیا - یہ شرف بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد قصی کو نصیب ہوا - 
                                      ( ضیاء النبی ﷺ)

                  قصی کے چار فرزند تھے بڑے بیٹے کا نام عبدالدار تھا - ان سے چھوٹے عبد مناف تھے اگرچہ عمر کے لحاظ سے عبدالدار بڑے تھے لیکن عبد مناف کی ذاتی خوبیوں کے باعث ساری قوم انکی گرویدہ اور دلدادہ تھی - انکی جودوسخا کے باعث قریش انکو الفیاض کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے- 
امام محمد بن یوسف الصا لحی رقمطراز ہیں -
                        "کہ قصی نے اپنے مناصب کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا - سقایہ اور ندوہ عبد مناف کو تفویض کیا انکی ذریت سے سرور عالم ﷺ ہوۓ اور حجابہ اور لواء عبدالدار کو دیا یعنی خانہ کعبہ کی خدمت اور جھنڈا اور ایام منیٰ میں حاجیوں کی میزبانی کا فریضہ عبدالعزیٰ کو سونپا انکی اجازت کے بغیر کوئ اپنا چولہا گرم نہیں کر سکتا تھا - اور وادی کی حفاظت کی ذمہ داری عبد قصی کو سونپی -"
                                                               (سبل الہدیٰ )
آپ کی وفات کے بعد آپکو حجون میں دفن کیا گیا اور اسکے بعد سارے لوگ اپنی میّتوں کو وہیں دفن کرنے لگے - 

قصی کے حکیمانہ اقوال

  • جس نے کسی سفلہ مزاج اور کمینہ خصلت آدمی کا احترام کیا گویا اسکی کمینگی میں حصہ دار ہے -
  • جو شخص کسی قبیح چیز کو مستحسن سمجھتا ہے وہ اس قبیح چیز کے حوالے کردیا جاتا ہے - 
  • عزت وتکریم سے جسکی اصلاح نہیں ہوتی ذلت و رسوائ اسکی اصلاح کر دیتی ہے -
  • جس نے اپنے حق سے زیادہ طلب کیا وہ محرومی کا حقدار ہے - 
  • حاسد تیرا چھپا ہوا دشمن ہے -
  • شراب سے اجتناب کرنا کیونکہ یہ بدن کو تو درست کرتی ہے لیکن ذہن کو برباد کر دیتی ہے -
                                 ( السیرۃ النبویہ )




    

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔