Saturday, March 7, 2015
Sunday, December 14, 2014
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Unknown
0
comments


حضرت عبد ا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
دنیا کا کوئ باپ آپ سے زیادہ خوش بخت اور بلند اقبال نہیں ہے آپ اس عظیم ہستی کے باپ ہیں جو با عث تکوین کا ئنات ہے اولین و آخرین انبیاء ، مرسلین اور انکی امتیں جسکے فیض سے فیض یاب ہیں جو شفیع المذنبین ھے - ایسی بے مثال و بے نظیر ہستی کے باپ کا نام عبداللہ ہے -
حضرت عبدالمطلب کی نذر
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے اور سب سے لاڈلے بیٹے تھے آپکے والد نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا کۓ اور سب جوان اور صحتمند ہو کر انکی تقویت کا باعث بنے تو وہ ان میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیں گے - جب سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ بیس سال کی ہوگئ تو اب انہیں اپنی نذر ایفاء کرنے کا خیال آیا - آپ نے اپنے فرزندوں سے اس بات کا تذکرہ کیا تمام بیٹوں نے سعادت مندی سے سر جھکا دۓ -
طے پایا کہ بیت ا للہ شریف کے فال نکالنے والے سے فال نکالی جاۓ جس کے نام کا قرعہ نکلے اسکو راہ خدا میں قربان کر دیا جاۓ - سب مل کر بیت اللہ شریف کے پاس جمع ہوۓ فال نکالنے والے کو بلایا گیا صورت حال سے اسے آگاہ کیا گیا وہ فال کے تیر نکال کر لے آیا اور فال نکالنے کی تیاری کرنے لگا کسی ایک بچہ کا نام ضرور نکلے گا - آپ کے سارے بچے شکل و صورت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے - کسی ایک کے گلے پر چھری ضرور پھیری جاۓ گی لیکن عبدالمطلب پہاڑ کی چٹان بنے کھڑے ہیں - ان کے ارادے میں کسی لچک کا دوردور تک نشان نہیں - اپنے رب سے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کریں گے -
طے پایا کہ بیت ا للہ شریف کے فال نکالنے والے سے فال نکالی جاۓ جس کے نام کا قرعہ نکلے اسکو راہ خدا میں قربان کر دیا جاۓ - سب مل کر بیت اللہ شریف کے پاس جمع ہوۓ فال نکالنے والے کو بلایا گیا صورت حال سے اسے آگاہ کیا گیا وہ فال کے تیر نکال کر لے آیا اور فال نکالنے کی تیاری کرنے لگا کسی ایک بچہ کا نام ضرور نکلے گا - آپ کے سارے بچے شکل و صورت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے - کسی ایک کے گلے پر چھری ضرور پھیری جاۓ گی لیکن عبدالمطلب پہاڑ کی چٹان بنے کھڑے ہیں - ان کے ارادے میں کسی لچک کا دوردور تک نشان نہیں - اپنے رب سے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کریں گے -
قرعہ کس کے نام نکلا ؟
فال نکا لنے والے نے فال نکالی قرعہء فال حضرت عبداللہ کے نام نکلا - یہ درست ہے کہ عبداللہ بہت حسین ہیں بوڑھے باپ کے یہ سب سے چھوٹے بیٹے ہیں اور سب بھائیوں سے زیادہ وہ انہیں محبوب ہیں - لیکن یہاں معاملہ عبدالمطلب اور اسکے خدا کا ہے - اس میں کوئ پیاری سے پیاری چیز حائل نہیں ہوسکتی اگر اسکے خالق نے قربانی کے لۓ عبداللہ کو پسند فرمایا ہے تو عبداللہ کو اسکی رضا کے لۓ ضرور قربان کیا جاۓ گا -
چھری لائ جاتی ہے عبداللہ کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے لۓ حضرت عبدالمطلب آستین چڑھارہے ہیں اسکی اطلاع مکہ کے ہرگھر میں گونجنے لگتی ہے - مکہ کے سردار کہتے ہیں عبداللہ انکے سامنے ذبح کردیا جاۓ ایسا ہرگز نہیں ہوگا - وہ منت سماجت پر اتر آۓ کہ
" اے ہمارے سردار! اگر بیٹوں کو ذبح کرنے کی رسم کا آغاز تمہاری جیسی ہستی نے کردیا تو پھر اس رسم کو بند کرنا کسی کے بس کا روگ نہ رہے گا اپنی قوم کے نونہالوں پر رحم کرو "-
آخر کیا حل نکالا گیا؟
طویل کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ حجاز کی عرافہ کے پاس جاتے ہیں-وہ جو فیصلہ کرے اسکو وہ سب تسلیم کریں گے - وہاں جاتے ہیں اسکو اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہیں
وہ کہتی ہے مجھے ایک دن کی مہلت دومیرا تابعی آۓ گا تو میں اس سے پوچھ کر بتاؤں گی دوسرے روز پھر اسکے پاس جاتے ہیں وہ کہتی ہے میرا تابعی آیا تھا میں نے تمھارے سوال کے بارے میں اس سے پوچھا تھا اس نے اسکا حل مجھے بتایا ہے پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمھارے ھاں مقتول کی دیت کیا ہے انہوں نے بتایا دس اونٹ - اس نے کہا تم اپنے وطن واپس جاؤاور---------------
ایک طرف دس اونٹ کھڑے کر دینا اور دوسری طرف عبداللہ - پھر فال نکالنا - اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا توان کو ذبح کردینا تمہاری نذر ادا ہوجاۓ گیا اور اگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلے تو پھر دس دس اونٹ بڑھاتے جانا اور قرعہ نکالتے جانا یہاں تک کہ قرعہ عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں کے نام نکلے جتنے اونٹوں پر قرعہ نکلے انکو ذبح کردینا یوں تمہاری نذر پوری ہوجاۓ گی-
سارا کارواں عرافہ کے اس فیصلہ کو سن کر مکہ واپس آگیا اور اسکے کہنے کے مطابق قرعہ اندازی شروع کردی - دس اونٹوں کے وقت بھی قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا - دس دس اونٹ بڑھاتے گۓ لیکن ہر بار قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئ - اس وقت قرعہ اندازی کی گئ تو حضرت عبداللہ کے بجاۓ سو اونٹوں پر قرعہ نکلا -
حضرت عبدالمطلب کو بتایا گیا تو آپ نے کہا تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار ااونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو تسلیم کرونگا ورنہ نہیں-
عالم انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا چنانچہ وہ سو اونٹ ذبح کردۓ گۓ اور اعلان عام کیا گیا کہ انکے گوشت کو جو چاہے جتنا چاہے لے جاۓ کسی کو روکا نہ جاۓ یہاں تک کہ گوشت خور پرندے اور درندے کو بھی انکا گوشت کھانے سے منع نہ کیا جاۓ
ایک طرف دس اونٹ کھڑے کر دینا اور دوسری طرف عبداللہ - پھر فال نکالنا - اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا توان کو ذبح کردینا تمہاری نذر ادا ہوجاۓ گیا اور اگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلے تو پھر دس دس اونٹ بڑھاتے جانا اور قرعہ نکالتے جانا یہاں تک کہ قرعہ عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں کے نام نکلے جتنے اونٹوں پر قرعہ نکلے انکو ذبح کردینا یوں تمہاری نذر پوری ہوجاۓ گی-
سارا کارواں عرافہ کے اس فیصلہ کو سن کر مکہ واپس آگیا اور اسکے کہنے کے مطابق قرعہ اندازی شروع کردی - دس اونٹوں کے وقت بھی قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا - دس دس اونٹ بڑھاتے گۓ لیکن ہر بار قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئ - اس وقت قرعہ اندازی کی گئ تو حضرت عبداللہ کے بجاۓ سو اونٹوں پر قرعہ نکلا -
حضرت عبدالمطلب کو بتایا گیا تو آپ نے کہا تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار ااونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو تسلیم کرونگا ورنہ نہیں-
عالم انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا چنانچہ وہ سو اونٹ ذبح کردۓ گۓ اور اعلان عام کیا گیا کہ انکے گوشت کو جو چاہے جتنا چاہے لے جاۓ کسی کو روکا نہ جاۓ یہاں تک کہ گوشت خور پرندے اور درندے کو بھی انکا گوشت کھانے سے منع نہ کیا جاۓ
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکاح
حضرت عبدالمطلب کی خواہش تھی کہ اپنے نیک بخت بیٹے کی شادی کی خوشی منائیں اور ایسی دلہن بیاہ کر لائیں جو اپنے دولہا کی طرح خصائل وشمائل میں اپنی نظیر نہ رکھتی ہو - آپ کی حقیقیت شناس نگاہ نے قریش کے بنو زہرہ خاندان کے سرداروھب بن عبد مناف بن زہرہ کی نور نظر حور شمائل لخت جگر آمنہ کا انتخاب کیا - آپ وھب کے گھر تشریف لے گۓ اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی بچی آمنہ کا رشتہ ان کے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ کے لۓ دیں -
وھب نے حضرت عبدالمطلب کی خواہش کے مطابق حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبداللہ کو دینا منظور کر لیا پھر جلد ہی تقریب نکاح انجام پذیر ہوئ اور آپ اپنے عظیم القدر سسر کے زیر سایہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں -
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال
حضرت عبدالمطلب کا پیشہ تجارت تھا - آپ کی کو ششوں کے طفیل مکہ کے تجارتی کاروانوں کو شام ، فلسطین وغیرہ ممالک میں آمدورفت کی اجازت ملی تھی چنانچہ حضرت عبدالمطلب کے تجارتی سامان سے لدے ھوۓ اونٹ ان ممالک میں آیا جایا کرتے تھے شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ کو اپنے والد کے ایک تجارتی قافلہ کی نگرانی کرنے اور کاروباری ذمہ داریاں انجام دینے کے لۓ ملک شام جانا پڑا -
تجارتی مصروفیتوں سے فراغت پانے کے بعد جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ واپس آنے کے لۓ روانہ ھوۓ تو راستہ میں بیمار ہوگۓ قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئ اس لۓ وہ اپنے ننہال میں رک گۓ تاکہ طبیعت سنبھلے تو سفر شروع کریں - دوسرے ساتھی واپس لوٹ آۓ آ پ ایک ماہ وہاں بیمار رہنے کے بعد واصل بحق ہوگۓ -
اِ نٌَا لِلٌٰہِ وَ اِ نٌَا اِ لَیْہِ رَا جِعُوْن
انکی اچانک وفات سے سب کو ضرور صدمہ ہوا ہوگا لیکن حضرت آمنہ کے دل پر جو قیامت ٹوٹی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتی ہیں -
( ضیا ء النبی ﷺ )
تجارتی مصروفیتوں سے فراغت پانے کے بعد جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ واپس آنے کے لۓ روانہ ھوۓ تو راستہ میں بیمار ہوگۓ قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئ اس لۓ وہ اپنے ننہال میں رک گۓ تاکہ طبیعت سنبھلے تو سفر شروع کریں - دوسرے ساتھی واپس لوٹ آۓ آ پ ایک ماہ وہاں بیمار رہنے کے بعد واصل بحق ہوگۓ -
اِ نٌَا لِلٌٰہِ وَ اِ نٌَا اِ لَیْہِ رَا جِعُوْن
انکی اچانک وفات سے سب کو ضرور صدمہ ہوا ہوگا لیکن حضرت آمنہ کے دل پر جو قیامت ٹوٹی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتی ہیں -
( ضیا ء النبی ﷺ )
در یتیم ﷺ
حبیب کبریاء ﷺ ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا لیا گیا اور آپ یتیم ہوکر رہ گۓ
علامہ احمد بن زینی دحلان رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں -
"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائ تو فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی اے ہمارے اللہ ! اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہوگیا اسکا باپ نہ رہا - اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ہم اسکے حافظ اور مددگار ہیں -
دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں اسکا دوست ہوں ، نگہبان ہوں ، مددگار ہوں ، پروردگار ہوں ، اسکی مدد کرنے والا ہوں اسکو رزق دینے والا ھوں اور ہر بات میں اسکے لۓ کافی ہوں - پس تم اس پر درود پڑھا کرو اور اسکے نام سے برکت حاصل کیا کرو -"
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
پو چھا گیا
کہ نبی کریم ﷺ کو یتیم پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ آپ نے فرمایا اسکی متعدد حکمتیں ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہے تاکہ کسی مخلوق کا حق آپ پر نہ رہے - یعنی وہ حقوق جو بالغ ہونے کے بعد کسی پر انکی ادائیگی لازم ہوتی ہے - آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی اس وقت انتقال فرما یا جب کہ حضور ﷺ کی عمر مبارک صرف چھ سال تھی نیز یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ معزز وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت عطا فرماۓ - نیز آپ کی قوت آپکے آباءواجداد اور ماؤں کے ذریعہ سے نہیں اور نہ مال کے ذریعہ سے بلکہ آپکی قوت و طاقت کا راز اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے - اور اسکی حکمت یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو جب یتیمی کا ذاتی تجربہ ہوگا تو حضور ﷺ فقیروں اور یتیموں پر رحم فرمائیں گے -
( السیرۃ النبویہ )
Monday, December 8, 2014
آن لائن شریعت کورس
Unknown
0
comments


"آن لائن شریعت کورس"
اس کورس میں درج ذیل مضامین پڑھاۓ جائیں گے انشاء اللہ عزّوجل
- تجوید
- تفسیر (سورۃ النساء ، یٰس ، الحجرات ، مائدہ )
- حدیث
- فقہ
- عربی گرامر
- عقا ئد
وقت ؛
11 سے 12 رات (پاکستانی وقت)
ایّام ؛
پیر ، منگل ، بدھ ، جمعرات
skype ID ( al-haq-islam )
start on monday - 15 Dec 2014
only for sisters.
only for sisters.
Wednesday, December 3, 2014
عبد ا لمطلب
Unknown
0
comments


عبد ا لمطلب
عبد مناف کے چار بیٹے تھے سب سے بڑے کا نام ہاشم تھا اور سب سے چھوٹے کا نام مطلب تھا - ہاشم کی شادی یثرب کے قبیلہ بنی نجار کے سردارعمر بن لبید الخزرجی کی صاحبزادی سلمیٰ کے ساتھ ھوئ - جب بچہ پیدا ہوا تو اسکے سرکے بالوں میں چند سفید بال تھے اس لۓ انکا نام شیبہ (بوڑھا) تجویز ہوا ہاشم پھر تجارتی کارواں کے ہمراہ شام گۓ وہیں انکی وفات ھوئ -
شیبہ اور انکی والدہ سلمیٰ تقریباً سات سال تک یثرب(مدینہ) میں رہے - پھر انکے چچا مطلب دونوں ماں بیٹے کو لینے مدینہ روانہ ہوۓ سلمیٰ نے خود آنے سے انکار کردیا لیکن بیٹے کے مستقبل کی خاطر بچہ کو مکہ بھیجنے پر رضامند ہو گئیں -
"وجہء تسمیہ"
مطلب نے اپنے بھتیجے شیبہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا اور مکہ کے لۓ روانہ ہوگۓ مکہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا بڑے بڑے رئیس اپنی اپنی مجلسیں جماۓ بیٹھے تھے جب مطلب انکے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ آپ نے جواب دیا یہ میرا غلام ھے - گھر پہنچے بیوی نے بچہ کے بارے میں استفسار کیا تو اسے بھی یہی جواب دیا کہ یہ میرا غلام ھے - اسطرح شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوگۓ پھر مطلب نے بچہ کو نہلایا نیا لباس پہنایا اور لوگوں کو بتایا کہ یہ میرے بڑے بھائ ہاشم کا لخت جگر ہے لیکن عبدالمطلب کے نام کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئ کہ عمر بھر اسی نام سے پکارے جاتے رہے - شیبہ جو انکا اصلی نام تھا اسکی طرف کسی نے توجہ نہ دی -"چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائ"
بنوجرہم کو بنو خزاعہ نےجب مکہ سے جلاوطن کیا تو انہوں نے بیت اللہ شریف کے اندر سونے کے جو دو ہرن آویزآں تھے اور تلواریں ، زرہیں اور دیگر قیمتی سامان - وہ سب زمزم کے کنوئیں میں پھینکا پھر اسکو مٹی سے بھر دیا تاکہ بنو خزاعہ وغیرہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں - چنانچہ سینکڑوں سال زمزم بند رہا - حتیٰ کہ لوگوں کے ذہنوں سے اسکی یاد اور اسکی اہمیت محو ہوگئ - لوگ مکہ کے دوسرے کنوؤں سے اپنی ضروریات پوری کرنے لگے -
ایک روز عبدالمطلب حطیم میں سورہے تھے کسی نے خواب میں آکر کہا احفر طیبہ - طیبہ کو کھودو انہوں نے پوچھا - طیبہ کیا ہے تو کہنے والا غائب ہوگیا - دوسری رات پھر جب وہ اپنے بستر پر آکر لیٹے آنکھ لگی تو اس شخص نے پھر کہا احفر برہ - برہ کو کھودو - آپ نے پوچھا برہ کیا ھے تو پھر وہ غائب ھوگیا تیسری رات پھرخواب میں آواز آئ احفرمضنونہ - مضنونہ کو کھودو - آپ نے پوچھا مضنونہ کیا ہے وہ پھرغائب ہوگیا - جب چوتھی رات آئ اور وہ اپنی خواب گاہ میں آرام کرنے کے لۓ لیٹے تو آنکھ لگتے ہی آواز آئ احفر زمزم ، زمزم کو کھودو - آپ نے پوچھا زمزم کیا ہے؟ آج اس شخص نے تفصیلات بتاتے ہوۓ کہا -
" زمزم تیرے پدر نامور کی میراث ہے - یہ چشمہ نہ اسکا پانی ختم ہوتا ہے اور نہ اسکی مرمت کی جاتی ہے -اس سے حجاج کرام کو سیراب کیا جاتا ہےیہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں کالا کوا چونچیں مار رہا ھے - چیونٹیوں کی بستی کے با لکل قریب - "
جب تفصیلات کا علم ہوگیا تو دوسرے روز آپ اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ کدال لے کر (اس وقت انکا یہی ایک بیٹا تھا ) آگۓ اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں مشرکین بتوں کے لۓ قربانی کے جانور ذبح کیا کرتے تھے وہاں پہنچے دیکھا ایک سیاہ رنگ کا کوا وہاں چونچیں مار رہا ہے کھدائ شروع کردی یہاںتک کہ وہ ایک ایسی تہ تک پہنچ گۓ جس سے کامیابی کے امکانات روشن ہوگۓ آپ نے فرط مسرت سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا -آپ نے سونے کے ہرنوں کوگلا کر سونے کے پترے بنواۓاور کعبہ شریف کے دروازے پر منڈہ دۓ -
(الکامل لابن اثیر)
ایک روز عبدالمطلب حطیم میں سورہے تھے کسی نے خواب میں آکر کہا احفر طیبہ - طیبہ کو کھودو انہوں نے پوچھا - طیبہ کیا ہے تو کہنے والا غائب ہوگیا - دوسری رات پھر جب وہ اپنے بستر پر آکر لیٹے آنکھ لگی تو اس شخص نے پھر کہا احفر برہ - برہ کو کھودو - آپ نے پوچھا برہ کیا ھے تو پھر وہ غائب ھوگیا تیسری رات پھرخواب میں آواز آئ احفرمضنونہ - مضنونہ کو کھودو - آپ نے پوچھا مضنونہ کیا ہے وہ پھرغائب ہوگیا - جب چوتھی رات آئ اور وہ اپنی خواب گاہ میں آرام کرنے کے لۓ لیٹے تو آنکھ لگتے ہی آواز آئ احفر زمزم ، زمزم کو کھودو - آپ نے پوچھا زمزم کیا ہے؟ آج اس شخص نے تفصیلات بتاتے ہوۓ کہا -
" زمزم تیرے پدر نامور کی میراث ہے - یہ چشمہ نہ اسکا پانی ختم ہوتا ہے اور نہ اسکی مرمت کی جاتی ہے -اس سے حجاج کرام کو سیراب کیا جاتا ہےیہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں کالا کوا چونچیں مار رہا ھے - چیونٹیوں کی بستی کے با لکل قریب - "
جب تفصیلات کا علم ہوگیا تو دوسرے روز آپ اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ کدال لے کر (اس وقت انکا یہی ایک بیٹا تھا ) آگۓ اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں مشرکین بتوں کے لۓ قربانی کے جانور ذبح کیا کرتے تھے وہاں پہنچے دیکھا ایک سیاہ رنگ کا کوا وہاں چونچیں مار رہا ہے کھدائ شروع کردی یہاںتک کہ وہ ایک ایسی تہ تک پہنچ گۓ جس سے کامیابی کے امکانات روشن ہوگۓ آپ نے فرط مسرت سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا -آپ نے سونے کے ہرنوں کوگلا کر سونے کے پترے بنواۓاور کعبہ شریف کے دروازے پر منڈہ دۓ -
(الکامل لابن اثیر)
اصحاب فیل کا واقعہ
اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیاحضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ "ابرہہ " ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لۓ مکہ پر حملہ آور ہوا تھا - اسکا سبب یہ تھا کہ " ابرہہ " نے یمن کے دارالسلطنت "صنعاء " میں ایک بہت ہی شاندار اور عالیشان گرجا گھر بنایا - اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجاۓ خانہ کعبہ کے یمن آکر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں - جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ کنانہ کا ایک شخص غیظ و غضب میں یمن گیا اور وہاں کے گرجا گھروں میں پاخانہ کرکے اسکو نجاست سے لت پت کر دیا - جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو طیش میں آپے سے باہر ہوگیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لۓ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کردیا - اور اسکی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا - اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے -
(زرقانی)
نور نبوت کا جاہ وجلال
عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا - چنانچہ آپ اس معاملے میں گفتگو کرنے کے لۓ اس لشکر میں تشریف لے گۓ - جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لۓآیا ہے تو اس نے آپکو خیمہ میں بلالیا - اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ، رعب دار نہایت ہی حسین وجمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورنبوت کا جاہ و جمال چمک رہا ہے - تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہوگیا - اور بے اختیار تخت شاہی سے اتر کرآپ کی تعظیم و تکریم کے لۓ کھڑا ہوگیا - اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ " کہیے سردار قریش ! آپکی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے ؟ "
عبد المطلب نے جواب دیا کہ "کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپکے لشکر کے سپاہی ہانک لاۓ ہیں - آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجۓ "- یہ سن کر ابرہہ نے کہا "اے سردار قریش ! میں تو سمجھتا تھا کہ آپ تو بہت ہی حوصلہ مند اور شا ندار آدمی ہیں مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظرمیں اپنا وقار کم کردیا - اونٹ اور بکری کی حیثیت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لۓ آیا ہوں آپ نے اسکے بارے میں کوئ گفتگو نہیں کی "- عبدالمطلب نے کہا " مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ھے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے وہ خوداپنے گھر کو بچا لے گا مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے"-
عبد المطلب نے جواب دیا کہ "کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپکے لشکر کے سپاہی ہانک لاۓ ہیں - آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجۓ "- یہ سن کر ابرہہ نے کہا "اے سردار قریش ! میں تو سمجھتا تھا کہ آپ تو بہت ہی حوصلہ مند اور شا ندار آدمی ہیں مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظرمیں اپنا وقار کم کردیا - اونٹ اور بکری کی حیثیت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لۓ آیا ہوں آپ نے اسکے بارے میں کوئ گفتگو نہیں کی "- عبدالمطلب نے کہا " مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ھے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے وہ خوداپنے گھر کو بچا لے گا مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے"-
"ابرہہ کا فرعونی لہجہ"
یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجے میں کہنے لگا کہ " اے سردار مکہ! سن لیجیۓ میں کعبہ کو ڈھا کر اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا - اور روۓ زمین سے اسکا نام ونشان مٹا دوں گا - کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے - اس لۓ میں اسکا انتقام لینے کے لۓ کعبہ مسمار کردینا ضروری سمجھتا ھوں -" عبدالمطلب نے فرمایا کہ "پھرآپ جانے اور خدا جانے میں آپ سے سفارش کرنے والا کون ؟ " اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کردینے کا حکم دے دیا - اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آۓ - اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کرمکہ سے باہر نکل جا ؤ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو -
"حضرت عبدالمطلب کی گریہ وزاری"
مکہ والوں سے یہ کہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گۓ اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائ بے قراری اور گریہ وزاری کے ساتھ دربار باری میں اسطرح دعا مانگنے لگے کہ
"اے اللہ بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ھے لہذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما - اور صلیب والوں اور صلیب کے پجاریوں (عیسائیوں) کے مقابلے میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما -"
عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گۓ اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے-
"ابرہہ کا ہاتھی بیٹھ گیا"
ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لۓ اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام مغمس میں پہنچا تو خود اسکا ہاتھی جسکا نام محمود تھا ایک دم بیٹھ گیا اور ھر چند مارا بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا -
"ابابیلوں کا حملہ"
اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ھوۓ - اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جنکی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں - سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے - ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوج پر اس زور شور سے سنگ باری شروع کردی کہ آن کی آن میںابرہہ کے لشکر اور اسکے ہاتھیوں کے پرخچے اڑگۓ - ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار وجبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئ کنکری کسی فیل سوار کے سر پر پڑتی تو اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ھوئ ہاتھی کے بدن سے پار ہوجاتی - ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اسکے ہاتھیوں سمیت اسطرح ہلاک اور برباد ہوگۓ کہ انکے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پربکھر گئیں -
چنانچہ قرآن مجید کی سورہ فیل میں اللہ تعالٰی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ھوۓ ارشاد فرمایا
اَ لَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَ صْحٰبِ ا لْفِیْلِ ہ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فَیْ تَضْلِیْلٍ ہ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ ہ تَرْمِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ہ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ ہ
یعنی (اے محبوب) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا ؟ کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا ؟ اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چباۓ ہوۓ بھس جیسا بنا ڈالا -
جب ابرہہ اور اسکے لشکروں کا انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا - انکی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیا اور تمام اہل عرب انکو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے
(سیرت مصطفیٰ ﷺ)
یہ واقعہ یکم محرم کو پیش آیا اور یہی وہ مبارک سال ہے جس میں فخر آدم و بنی آدم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئ -
سید محمود آلوسی فرماتے ہیں -
" حضرت عبدالمطلب کے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں اور آپ کے خدوخال سے خیروبرکت کے آثار نمایاں ہوتے تھے وہ اپنی اولاد کو سرکشی اور ظلم سے منع کرتے تھے مکارم اخلاق کو اپنانے کی انہیں ترغیب دیتے تھے - اور گھٹیا کاموں سے انہیں روکتے تھے آپ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی - آپ نے اپنے اوپر شراب کو حرام کردیا تھا وہ پہلے شخص ہیں جو غار حراء میں جاکر مصروف عبادت ہوا کرتے تھے جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے حراء میں تشریف لے جاتے مسکینوں کو کھانا کھلاتے آپ کے دسترخوان سے پرندوں اور وحشی درندوں کے لۓ بھی خوراک مہیا کی جاتی تھی آپ کے جسم اطہر سے خا لص کستوری کی خوشبو آتی تھی قریش کو جب قحط کی مصیبت گھیر لیتی تو وہ آپ کے وسیلہ سے بارش طلب کرتےاور اللہ تعا لیٰ انکی برکت سے موسلا دھار بارش برساتا -"
(بلوغ الارب)
جب ابرہہ اور اسکے لشکروں کا انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا - انکی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیا اور تمام اہل عرب انکو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے
(سیرت مصطفیٰ ﷺ)
یہ واقعہ یکم محرم کو پیش آیا اور یہی وہ مبارک سال ہے جس میں فخر آدم و بنی آدم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئ -
سید محمود آلوسی فرماتے ہیں -
" حضرت عبدالمطلب کے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں اور آپ کے خدوخال سے خیروبرکت کے آثار نمایاں ہوتے تھے وہ اپنی اولاد کو سرکشی اور ظلم سے منع کرتے تھے مکارم اخلاق کو اپنانے کی انہیں ترغیب دیتے تھے - اور گھٹیا کاموں سے انہیں روکتے تھے آپ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی - آپ نے اپنے اوپر شراب کو حرام کردیا تھا وہ پہلے شخص ہیں جو غار حراء میں جاکر مصروف عبادت ہوا کرتے تھے جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے حراء میں تشریف لے جاتے مسکینوں کو کھانا کھلاتے آپ کے دسترخوان سے پرندوں اور وحشی درندوں کے لۓ بھی خوراک مہیا کی جاتی تھی آپ کے جسم اطہر سے خا لص کستوری کی خوشبو آتی تھی قریش کو جب قحط کی مصیبت گھیر لیتی تو وہ آپ کے وسیلہ سے بارش طلب کرتےاور اللہ تعا لیٰ انکی برکت سے موسلا دھار بارش برساتا -"
(بلوغ الارب)
Monday, December 1, 2014
ھا شم
Unknown
0
comments


ہا شم
عبد مناف کے چار بیٹے تھے - ہاشم - مطلب - عبد شمس - نوفل
ھاشم اور انکے بھائیوں کو المجیرون یعنی پناہ دینے والے کہا جاتا - کیونکہ یہ لوگ اپنی سخاوت اور سیادت کے باعث سارے عرب کے لۓ بہترین پناگاہ تھے -
ایک دفعہ قحط سالی کے باعث شدید فاقہ تک نوبت پہنچ گئ لوگوں کو کئ کئ روز تک کھانے کے لۓ کچھ میسر نہ آتا - ہاشم مکہ سے شام گۓ وہاں سے آٹا اور کعک خریدا اور حج کے ایام میں لدے ہوے اونٹوں کے ساتھ مکہ واپس آۓ - روٹیاں پکائ گئیں - اونٹ قطار در قطار ذبح ہوتے رہے انکے گوشت کو پکایا گیا سالن کے شوربے میں روٹیاں کوٹ کوٹ کر ڈالی گئیں اور ثرید بنا یا گیا تمام لوگوں کے لۓ دستر خوان بچھا دیا گیا اور سب کو کھانے کی دعوت دی گئ - سب نے خوب کھا یا یہاں تک کہ سیر ہوگۓ اس وجہ سے آپ کو ہاشم کہا جانے لگا - ہاشم کا معنی ھے روٹیاں توڑ توڑ کر شوربے میں ملانے والا -
آپ کو ابوالبطحاء اور سید البطحاء بھی کہا جاتا - عسر و یسرمیں انکا دسترخوان مہمانوں کے لۓ بچھا رہتا -
حضرت ہاشم کا ایک خطبہ جو فصاحت و بلاغت کے علاوہ حکیمانہ اقوال کا مرقع ہے پیش خدمت ہے - اسکے مطا لعہ سے حضرت ہاشم کی بلند نظری اور قوم کی اصلاح و فلاح کے لۓ انکے حکیمانہ انداذ فکر کی گہرائیوں اور وسعتوں کا اندازہ ہوگا اور ان مکارم اخلاق کا بھی علم ہوگا جو انکی ذات سے متصف تھے -
قریش اور خزاعہ کے دو قبیلے انکی خدمت میں حاضر ہوۓ اور باہمی منافرت میں ان سے فیصلہ چاہا کہ بجاۓ اسکے کہ آپ ایک قبیلہ کے فضائل بیان کرتے اور دوسرے کی کمزوریوں اور رذائل کا ذکر کرتے - آپ نے بڑے نرالے انداز سےانکے منتفر دلوں کو جوڑنے کی اور اخوت و محبت کے رشتہ میں پرونے کی کوشش فرمائ -
" اے لوگوں ! ہم آل ابراھیم ہیں اولاد اسماعیل ہیں نضر بن
کنانہ کے فرزند ہیں قصی بن کلاب کے بیٹے ہیں اور مکہ کے
مالک ہیں اور حرم میں رہنے والے ہیں - حسب کی بلندی اور
بزرگی کی پختگی ہمارے لۓ ہے - جس نے کسی کے ساتھ
دوستی کا معا ہدہ کیا ہے اسکی مدد ضروری ہے - اور اگر وہ
پکارے تو اسکو لبیک کہنا لازمی ہے بجز اسکے کہ اسکی
دعوت اپنے قبیلہ سے سرکشی اور قطع رحمی کی ہو -
کنانہ کے فرزند ہیں قصی بن کلاب کے بیٹے ہیں اور مکہ کے
مالک ہیں اور حرم میں رہنے والے ہیں - حسب کی بلندی اور
بزرگی کی پختگی ہمارے لۓ ہے - جس نے کسی کے ساتھ
دوستی کا معا ہدہ کیا ہے اسکی مدد ضروری ہے - اور اگر وہ
پکارے تو اسکو لبیک کہنا لازمی ہے بجز اسکے کہ اسکی
دعوت اپنے قبیلہ سے سرکشی اور قطع رحمی کی ہو -
اے قصی کے بیٹوں ! تم اس طرح ہو جس طرح درخت کی دو
ٹہنیاں ہوتی ہیں اگر ان میں سے ایک ٹوٹ جاۓ تو دوسری بھی
وحشت اور نقصان سے دوچار ہوتی ہے تلوار کی حفاظت
اسکی نیام ہی سے ہو سکتی ہے جو آدمی اپنے قبیلہ پر تیر
اندازی کرتا ہے وہ خود بھی اپنے تیر کا نشانہ بنتا ہے
ٹہنیاں ہوتی ہیں اگر ان میں سے ایک ٹوٹ جاۓ تو دوسری بھی
وحشت اور نقصان سے دوچار ہوتی ہے تلوار کی حفاظت
اسکی نیام ہی سے ہو سکتی ہے جو آدمی اپنے قبیلہ پر تیر
اندازی کرتا ہے وہ خود بھی اپنے تیر کا نشانہ بنتا ہے
اے لوگوں ! حلم اور بردباری بزرگی ہے صبر کامیابی کی کلید
ہے - اچھائ ایک خزانہ ہے اور سخاوت سرداری ہے اور
جہالت کمینگی ہے - دن بدلتے رہتے ہیں زمانہ تغیر پذیر رہتا
ہے اور ہر انسان کو اپنے کام کی طرف منسوب کیا جاتا اور
اپنے عمل کے باعث اس سے باز پرس کی جاتی ہے- اچھے
کام کرو لوگ تمہاری تعریف کریں گے فضول باتوں سے دامن
کش رہو - بے وقوف لوگ تم سے علیحدہ رہیں گے - اپنے ہم
نشین کی عزت کرو تمہاری مجلسیں آباد رہیں گی اپنے شریک
کار کی حفاظت کرو لوگ تمہاری پناہ لینے کے مشتاق ہونگے
- اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرو - تم پر اعتماد کیا جاۓ
گا - مکارم اخلاق کی پابندی کرو کیونکہ اس میں تمہاری بلندی
ہے اور کمینہ عادتوں سے دور رہو کیونکہ اس سے عزت
خاک میں مل جاتی ہے اور نا موری کا قصر منہدم ہو جاتا ہے -"
ہے - اچھائ ایک خزانہ ہے اور سخاوت سرداری ہے اور
جہالت کمینگی ہے - دن بدلتے رہتے ہیں زمانہ تغیر پذیر رہتا
ہے اور ہر انسان کو اپنے کام کی طرف منسوب کیا جاتا اور
اپنے عمل کے باعث اس سے باز پرس کی جاتی ہے- اچھے
کام کرو لوگ تمہاری تعریف کریں گے فضول باتوں سے دامن
کش رہو - بے وقوف لوگ تم سے علیحدہ رہیں گے - اپنے ہم
نشین کی عزت کرو تمہاری مجلسیں آباد رہیں گی اپنے شریک
کار کی حفاظت کرو لوگ تمہاری پناہ لینے کے مشتاق ہونگے
- اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرو - تم پر اعتماد کیا جاۓ
گا - مکارم اخلاق کی پابندی کرو کیونکہ اس میں تمہاری بلندی
ہے اور کمینہ عادتوں سے دور رہو کیونکہ اس سے عزت
خاک میں مل جاتی ہے اور نا موری کا قصر منہدم ہو جاتا ہے -"
( اعلام النبوۃ الما دردی )
حضرت ہاشم کی عمر ابھی پچیس سال کے قریب تھی - آپ کا عنفوان شباب تھا آ پ اپنے تجارتی کارواں کو لے کر شام کے علاقہ میں گۓ وہیں بیمار ھوۓ اور وفات پائ آپکا مزار غزہ شہر میں ہے -
Sunday, November 30, 2014
عبدِ مناف
Unknown
0
comments


عبدِ مناف
ان کا نام مغیرہ تھا انکے حسن و جمال کی وجہ سے انہیں قمرالبطحاء ( بطحا کا چاند ) کہا جاتا تھا
انکے بارے میں آلوسی لکھتے ہیں -
" انکو انکے حسن و جمال کی وجہ سے بطحا کا چاند کہا جاتا تھا - حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ھیں کہ انہیں ایک پتھر ملا - جس پر یہ عبارت کندہ تھی - میں مغیرہ بن قصی ہوں میں قریش کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کریں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کریں - آپ بتوں سے بغض رکھتے تھے اور نبی کریم ﷺ کا نور انکے چہرے پر چمکتا تھا - "
(بلوغ الارب)
اپنی سخاوت اور غیر معمولی سیاسی فہم وفراست کی وجہ سے اپنے والد کے بعد یہی اپنی قوم کے سردار مقرر ہوۓ انکے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے -
" قریش ایک انڈہ کی مانند ھیں اور جب اسے پھوڑا گیا تو اسکا مغز اور جوہر عبد مناف ہیں -"
وجہ تسمیہ
مناف کا معنی ہے بلند و بالا ہونا - اسی وجہ سے آپ عبد مناف کے لقب سے مشہور ھوۓ - کیونکہ اپنے خصائل و مکارم کے باعث یہ اپنے ہمعصروں سے اعلیٰ وارفع تھے -
(سبل ا لہدیٰ)
Wednesday, November 26, 2014
قُصی
Unknown
0
comments


قُصی
انکا نام زید تھا 400ء کے لگ بھگ پیدا ھوۓ -
یہ قبیلہ قریش کے عالم تھے اور انکو راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی تاکید کرتے رہتے یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کرتے اس وقت اس دن کو یوم العروبہ کہا جاتا تھا - انہیں وعظ و نصیحت کرتے اور انہیں آگاہ کرتے کہ عنقریب ان میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ھے جب وہ تشریف لاۓ تو اس کی دعوت کو قبول کرنے میں پس و پیش نہ کرنا فوراً اس پر ایمان لے آنا - اگرچہ عمر بن لُحّی الخزاعی کی بد بختی کے باعث اصنام پرستی کی بیماری اہل مکہ اور اہل عرب میں بھی قبول عام حاصل کر چکی تھی لیکن آپ اپنے خطبات میں اپنی قوم کو اصنام پرستی سے باز رینے کی تلقین کرتے -
(بلوغ الارب )
انکا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی انکو قصی کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب انکے والد کلاب انتقال کر گۓ تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ فاطمہ بنت سعد اور دو بچے چھوڑے بڑے بچے کا نام زہرہ تھا - دوسرے یہ زید تھے جو اس وقت بہت کم سن تھے - ربیعہ بن حرام بن ضبہ نے انکی والدہ فاطمہ کے ساتھ نکاح کر لیا جب وہ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر وطن لوٹنے لگا تو بڑے بھائ زہرہ کو مکہ میں چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ جوان ھو رہے تھے اور زید کو کم سنی کی وجہ سے پیچھے چھوڑنا گوارا نہ کیا اپنے وطن " عزرہ " جو شام کی سرحد کے قریب ھے واپس جانے لگا تو زید کو ساتھ لے گیا -
آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائ سال اسی علاقے میں گزارے ایک روز بنی قضاعہ کے کسی لڑکے نے انہیں غریب الوطنی کا طعنہ دیا جسے سن کر آپ کو بڑا دکھ ھوا اور افسردہ خاطر ھوکر اپنی ماں کے پاس آۓ اور ان سے حقیقت حال دریافت کی - ماں نے کہا بیٹا آزردہ ھونے کی کیا بات ھے تو ایسے خاندان کا چشم و چراغ ھے جسکی سارے عرب میں عزت و تکریم کی جاتی ھے - تو اپنی ذات اور نسب کے اعتبار سے یہاں کے سب لوگوں سےاعلیٰ و ارفع ھے - تو قریش کے مشہور سردار کلاب بن مرہ کا بیٹا ھے تیرا قبیلہ مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ھے
انہوں نے کہا ماں ، میں اب یہاں نہیں رہ سکتا مجھے اجازت دو کہ میں اپنے قبیلہ والوں کے پاس چلا جاؤں مجھ سے غریب الوطنی کے طعنے نہیں سنے جاسکتے ماں نے کہا بیٹا تھوڑی دیر انتظار کرو جب حج کے مہینے آجائیں گے یہاں سے حجاج کو جو قافلہ جاۓ گا انکی معیت میں مکہ چلے جانا - سلامتی سے اپنے وطن پہنچ جاؤگے چنانچہ جب حج کا موسم آیا تو یہاں کے حا جیوں کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ھو گۓ
(طبقات ابن سعد )
کعب بن لوئ کی اولاد سے قصی پہلا شخص ہے جسکو حکومت ملی - اور ساری قوم نے برضا و رغبت جسکی اطاعت قبول کی - قوم نے قصی کو حجابہ ، رفادہ ، سقایا ، ندوہ ، اور اللواء پانچوں مناصب سپرد کردۓ تھے -آئیں ھم دیکھتے ہیں کہ ان پانچوں منا صب سے کیا مراد ہے؟
انکا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی انکو قصی کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب انکے والد کلاب انتقال کر گۓ تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ فاطمہ بنت سعد اور دو بچے چھوڑے بڑے بچے کا نام زہرہ تھا - دوسرے یہ زید تھے جو اس وقت بہت کم سن تھے - ربیعہ بن حرام بن ضبہ نے انکی والدہ فاطمہ کے ساتھ نکاح کر لیا جب وہ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر وطن لوٹنے لگا تو بڑے بھائ زہرہ کو مکہ میں چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ جوان ھو رہے تھے اور زید کو کم سنی کی وجہ سے پیچھے چھوڑنا گوارا نہ کیا اپنے وطن " عزرہ " جو شام کی سرحد کے قریب ھے واپس جانے لگا تو زید کو ساتھ لے گیا -
آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائ سال اسی علاقے میں گزارے ایک روز بنی قضاعہ کے کسی لڑکے نے انہیں غریب الوطنی کا طعنہ دیا جسے سن کر آپ کو بڑا دکھ ھوا اور افسردہ خاطر ھوکر اپنی ماں کے پاس آۓ اور ان سے حقیقت حال دریافت کی - ماں نے کہا بیٹا آزردہ ھونے کی کیا بات ھے تو ایسے خاندان کا چشم و چراغ ھے جسکی سارے عرب میں عزت و تکریم کی جاتی ھے - تو اپنی ذات اور نسب کے اعتبار سے یہاں کے سب لوگوں سےاعلیٰ و ارفع ھے - تو قریش کے مشہور سردار کلاب بن مرہ کا بیٹا ھے تیرا قبیلہ مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ھے
انہوں نے کہا ماں ، میں اب یہاں نہیں رہ سکتا مجھے اجازت دو کہ میں اپنے قبیلہ والوں کے پاس چلا جاؤں مجھ سے غریب الوطنی کے طعنے نہیں سنے جاسکتے ماں نے کہا بیٹا تھوڑی دیر انتظار کرو جب حج کے مہینے آجائیں گے یہاں سے حجاج کو جو قافلہ جاۓ گا انکی معیت میں مکہ چلے جانا - سلامتی سے اپنے وطن پہنچ جاؤگے چنانچہ جب حج کا موسم آیا تو یہاں کے حا جیوں کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ھو گۓ
کیونک آپکے بچپن کا سارا زمانہ اپنے وطن سے بہت دور گزرا تھا اس لۓ یہ قصی " دور افتادہ " کے نام سے مشہور ھوگۓ
(طبقات ابن سعد )
کعب بن لوئ کی اولاد سے قصی پہلا شخص ہے جسکو حکومت ملی - اور ساری قوم نے برضا و رغبت جسکی اطاعت قبول کی - قوم نے قصی کو حجابہ ، رفادہ ، سقایا ، ندوہ ، اور اللواء پانچوں مناصب سپرد کردۓ تھے -آئیں ھم دیکھتے ہیں کہ ان پانچوں منا صب سے کیا مراد ہے؟
"حجابہ"
یہ ایک جلیل القدر منصب تھا اس سے مراد کعبہ شریف کی خدمت کے فرائض انجام دینا تھا - یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جس قبیلہ کو یہ منصب تفویض کیا جاتا بیت اللہ شریف کی کنجیاں بھی اسکے حوالے کر دی جاتیں - کعبہ کے دروازے کو کھولنا اور بند کرنا اسکی ذمہ داری ھوتی - کعبہ میں جو اما نتیں رکھی جاتیں نذرانے کے طور پرلوگ جو قیمتی تحائف ، زیورات وغیرہ پیش کرتے انکی حفاظت بھی اسی کی ذمہ داری ھوتی -
"رفادہ"
قصی نے مکہ مکرمہ کی زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی قوم کو جمع کیا اورانکے سامنے تقریر کرتے ھوۓ کہا کہ حاجی اللہ کے مہمان اور اسکے گھر کے زائر ھوتے ھیں وہ ایسے مہمان ہیں جن کی ضیافت اور میزبانی ہمارا فریضہ ھے تم سب اپنے مالوں سے حصہ دو - تاکہ ایک ایسا اجتماعی فنڈ قائم کیا جاۓ جس سے ضیوف الرحمٰن کی عزت وتکریم اور انکی مہمان نوازی کی جا سکے - ساری قوم نے اس تجویز کو سراہا اور دل کھول کر اس میں مالی اعانت کی - چنانچہ ایام حج میں سارے حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام اس فنڈ سے کیا جاتا -
(طبقات ابن سعد)
اسلام کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی عہد رسالت ، عہد خلفاۓ راشدین حتیٰ کہ بنی امیہ اور بنی عباس کی خلافتوں کے دور میں بھی حجاج کی ضیافت کا یہ سلسلہ جاری رہا - جب عباسی خلافت کا چراغ گل ہوا تو رفادہ کا یہ انتظام بھی درہم برہم ھوگیا -
(ضیا ء النبی ﷺ )
"سقایہ"
حجاج کو پانی پلانے کا منصب - حج کے موسم میں قریش پانی کے ذخائر جمع کرتے اور ان میں زبیب (کشمش ) ڈالتے جس سے پانی کا ذائقہ میٹھا ھو جاتا اور حج کے ایام میں تمام حاجیوں کو پینے کے لۓ یہ پانی پیش کیا جاتا -
"ندوہ"
اسے آج کی اصطلاح میں پارلیمنٹ ہاؤس یا مجلس شوریٰ کہ سکتے ہیں دارالندوہ ایک وسیع عمارت تھی جس کا دروازہ حرم شریف میں کھلتا تھا اس میں اہل مکہ کے نمائندے جمع ہوتے اور پیش آمدہ سیاسی ، معاشی ، عمرانی مسائل کے بارے میں مشورے کرتے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے
اسکی رکنیت کے لۓ بنیا دی شرط یہ تھی کہ کسی رکن کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہو - انکی سماجی تقریبات یہاں ہی انجام پذیر ھوتیں -
( الروض الانف )
"اللواء"
اسے موجودہ دور کی وزارت دفاع کا ہم معنی کہ سکتے ھیں یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جب کوئ اجتماعی خطرہ درپیش ہوتا تو قومی علم کا علمبردار اسکو کھلے میدان میں گاڑ دیتا یہ گویا اسکی طرف سے اعلان ہوتا کہ اے اہل وطن ! اپنے وطن اور قوم کی آزادی کو جو خطرہ درپیش ہے اسکا تدارک کرنے کے لۓ سربکف میدان میں نکل آؤ - جب علم لہرانے کا واقعہ رونما ہوتا قریش کے سارے سرداربلا استثناء جمع ہوجاتے -
عرب کے آزاد اور خودسر معاشرے میں ان اداروں کو قائم کرکے قصی نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا - اہل عرب کو نظم و ضبط کا پابند اور خوگر بنانے کے لۓ یہ پہلی کامیاب کوشش تھی - کعبہ کی جو عمارت سیدنا ابراھیم اور اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر کی تھی وہ زمانہ دراز گزر جانے کے باعث بوسیدہ ھو رہی تھی - قصی نے اسکو گراکر کعبہ کو ازسرنوتعمیر کیا - یہ شرف بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد قصی کو نصیب ہوا -
( ضیاء النبی ﷺ)
قصی کے چار فرزند تھے بڑے بیٹے کا نام عبدالدار تھا - ان سے چھوٹے عبد مناف تھے اگرچہ عمر کے لحاظ سے عبدالدار بڑے تھے لیکن عبد مناف کی ذاتی خوبیوں کے باعث ساری قوم انکی گرویدہ اور دلدادہ تھی - انکی جودوسخا کے باعث قریش انکو الفیاض کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے-
امام محمد بن یوسف الصا لحی رقمطراز ہیں -
"کہ قصی نے اپنے مناصب کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا - سقایہ اور ندوہ عبد مناف کو تفویض کیا انکی ذریت سے سرور عالم ﷺ ہوۓ اور حجابہ اور لواء عبدالدار کو دیا یعنی خانہ کعبہ کی خدمت اور جھنڈا اور ایام منیٰ میں حاجیوں کی میزبانی کا فریضہ عبدالعزیٰ کو سونپا انکی اجازت کے بغیر کوئ اپنا چولہا گرم نہیں کر سکتا تھا - اور وادی کی حفاظت کی ذمہ داری عبد قصی کو سونپی -"
(سبل الہدیٰ )
آپ کی وفات کے بعد آپکو حجون میں دفن کیا گیا اور اسکے بعد سارے لوگ اپنی میّتوں کو وہیں دفن کرنے لگے -
قصی کے چار فرزند تھے بڑے بیٹے کا نام عبدالدار تھا - ان سے چھوٹے عبد مناف تھے اگرچہ عمر کے لحاظ سے عبدالدار بڑے تھے لیکن عبد مناف کی ذاتی خوبیوں کے باعث ساری قوم انکی گرویدہ اور دلدادہ تھی - انکی جودوسخا کے باعث قریش انکو الفیاض کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے-
امام محمد بن یوسف الصا لحی رقمطراز ہیں -
"کہ قصی نے اپنے مناصب کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا - سقایہ اور ندوہ عبد مناف کو تفویض کیا انکی ذریت سے سرور عالم ﷺ ہوۓ اور حجابہ اور لواء عبدالدار کو دیا یعنی خانہ کعبہ کی خدمت اور جھنڈا اور ایام منیٰ میں حاجیوں کی میزبانی کا فریضہ عبدالعزیٰ کو سونپا انکی اجازت کے بغیر کوئ اپنا چولہا گرم نہیں کر سکتا تھا - اور وادی کی حفاظت کی ذمہ داری عبد قصی کو سونپی -"
(سبل الہدیٰ )
آپ کی وفات کے بعد آپکو حجون میں دفن کیا گیا اور اسکے بعد سارے لوگ اپنی میّتوں کو وہیں دفن کرنے لگے -
قصی کے حکیمانہ اقوال
- جس نے کسی سفلہ مزاج اور کمینہ خصلت آدمی کا احترام کیا گویا اسکی کمینگی میں حصہ دار ہے -
- جو شخص کسی قبیح چیز کو مستحسن سمجھتا ہے وہ اس قبیح چیز کے حوالے کردیا جاتا ہے -
- عزت وتکریم سے جسکی اصلاح نہیں ہوتی ذلت و رسوائ اسکی اصلاح کر دیتی ہے -
- جس نے اپنے حق سے زیادہ طلب کیا وہ محرومی کا حقدار ہے -
- حاسد تیرا چھپا ہوا دشمن ہے -
- شراب سے اجتناب کرنا کیونکہ یہ بدن کو تو درست کرتی ہے لیکن ذہن کو برباد کر دیتی ہے -
( السیرۃ النبویہ )
Tuesday, November 25, 2014
کلا ب
Unknown
0
comments


کلا ب
انکی کنیت ابو زہرہ تھی - انکا نام حکیم ھے اور بعض نے عروہ بتایا ہے انکو کلاب کے لقب سے ملقب کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کتوں کے ساتھ بکثرت شکار کیا کرتے تھے - اور حضرت سیدہ آمنہ کے یہ تیسرے دادا تھے - یہاں آکر حضور ﷺ کے والد ماجد اوروالدہ ماجدہ کا نسب جمع ہوجاتا ھے اور مشہور یہ ھے کہ عربی مہینوں کے موجودہ نام انہوں نے تجویز کۓ تھے -
(محمد رسول اللہ ﷺ )
Monday, November 24, 2014
مّرہ
Unknown
0
comments


مّرہ
ان کی کنیت ابو یقظہ تھی - یہ حضورﷺ کے نسب میں چھٹے دادا ہیں اسی طرح حضرت صدیق اکبر کے بھی چھٹے دادا ھیں حضرت صدیق کا سلسلہ نسب یہاں آکر حضور ﷺ کے ساتھ مل جاتا ھے -
(محمد رسول اللہ ﷺ )
Sunday, November 23, 2014
کعب
Unknown
0
comments


کعب
حضور اکرم ﷺ کے اجداد کرام میں سے کعب کی شخصیت بڑی ممتاز تھی -وہ ہر جمعہ کو اپنے قبیلہ قریش کو جمع کرتے - اور انہیں خطاب فرماتے - انکے خطبات انکے ایمان صادق کی عکاسی بلکہ تصدیق کرتے ھیں وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ، عرفان الٰہی کی اہمیت کا انہیں احساس دلاتے ، انہیں تلقین کرتے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق ، گردش لیل ونہار اور دیگر مظاہر قدرت میں غور و فکر کریں عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت انہیں بخشی گئ ھے اسکو بے کار نہ رہنے دیں ، بلکہ اس سے کام لیں - گزشتہ قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کریں - صلہ رحمی ، وعدہ کی پابندی ، اور افشاء اسلام کو اپنا شعار بنائیں ، فقرا ء و مساکین کو صدقہ دیا کریں - وہ انہیں موت اور اسکی ھولنا کیوں کی یاد دلاتے روز محشر کے حالات سے انہیں آگاہ کرتے -
انہیں حضور اکرم ﷺ کی بعثت کی بشارت دیتے اور یہ بتاتے کہ حضور ﷺ انکی اولاد سے ھونگے - اپنی قوم کو تاکید فرماتے کہ اگر انہیں حضور ﷺ کا عہد نصیب ھو تو فوراً ایمان لائیں - اور ایسے شعر
پڑھتے جن سے اس محبت و وارفتگی کی خوشبو آتی جو حضور ﷺ سے ان کے دل میں موجزن رھتی تھی - اور اس شوق کا اظھار ھوتا ھے کہ کاش انہیں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ھو اور وہ حضور ﷺ کی دعوت کو
عام کرنے کے لۓ اپنی ساری قوتیں وقف کردیں -
انہیں حضور اکرم ﷺ کی بعثت کی بشارت دیتے اور یہ بتاتے کہ حضور ﷺ انکی اولاد سے ھونگے - اپنی قوم کو تاکید فرماتے کہ اگر انہیں حضور ﷺ کا عہد نصیب ھو تو فوراً ایمان لائیں - اور ایسے شعر
پڑھتے جن سے اس محبت و وارفتگی کی خوشبو آتی جو حضور ﷺ سے ان کے دل میں موجزن رھتی تھی - اور اس شوق کا اظھار ھوتا ھے کہ کاش انہیں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ھو اور وہ حضور ﷺ کی دعوت کو
عام کرنے کے لۓ اپنی ساری قوتیں وقف کردیں -
(ضیاء النبی ﷺ)
کعب کی موت اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے درمیان پانچ سو ساٹھ سال کا عرصہ ھے - انکے ارشادات اس بات کی گواہی دیتے ھیں کہ وہ دین ابراھیمی پر کاربند تھے -
ابن اثیر لکھتے ھیں ----؛
" کعب کی اھل عرب کے نزدیک بڑی قدرومنزلت تھی اھل عرب نے اپنی تاریخ کا آغاز انکے یوم وفات سے کیا عام فیل تک یہی سن تاریخ استعمال کرتے رھے - عام الفیل کے بعد اس واقعہ سے اھل عرب نے تاریخ کا کام لینا شروع کیا - وہ حج کے ایام میں لوگوں کو خطبہ دیا کرتے تھے اور آپ کا خطبہ مشہور ھے اس خطبہ میں سرکار دو عالم ﷺ کی بعثت کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا کرتے تھے - "
(الکامل الابن اثیر)
ان میں حضرت فاروق اعظم کا سلسلہ نسب حضور ﷺ کے ساتھ مل جاتا ھے -
ان میں حضرت فاروق اعظم کا سلسلہ نسب حضور ﷺ کے ساتھ مل جاتا ھے -
Saturday, November 22, 2014
لوی
Unknown
0
comments


لوی
انکی والدہ کا نام عاتکہ بنت یخلد بن نضر بن کنانہ تھا - قریش میں عاتکہ نام کی خواتین جنکا ذکر نبی رحمت ﷺ کے نسب شریف میں آتا ھے ان میں سے یہ پہلی عاتکہ ھیں لوئ کے دو سگے بھائ تھے ایک کا نام تیم تھا جن کی ٹھوڑی میں نقص کی وجہ سے تیم الادرم کہا جاتا تھا دوسرے بھائ کا نام قیس تھا انکی کوئ اولاد باقی نہیں - انکے خاندان کے آخری فرد نے خالد بن عبد اللہ القسری کے زمانہ میں وفات پائ انکے گھرانے کا کوئ فرد زندہ نہ تھا جو انکی میراث کا مستحق قرار پاتا -
(تاریخ طبری)
" لوی کو اللہ تعالیٰ نے حلم اور حکمت کی صفات سے نوازا تھا - بچپن میں ھی ایسے جملے آپ کی زبان سے نکلتے تھے جو ضرب المثل بن جایا کرتے تھے - "
(سبل الہدیٰ و الرشاد)
غالب
Unknown
0
comments


غالب
انکی کنیت ابو تیم تھی انکے دو بیٹے تھے ایک کا نام لوی اور دوسرے کا تیم تھا - بنو تیم کے قبیلہ کے جد اعلیٰ یہی تیم ھیں - جو غالب کے لڑکے تھے -
فِہر بن مالک
Unknown
0
comments


فِہر بن مالک
انکی والدہ کا نام جندلہ بنت عامر بن حارث بن مضاض الجرھمی تھا - یہ جَمّاع قریش کے لقب سے مشہور تھے اپنے زمانے میں وہ اہل مکہ اور ارد گرد بسنے والے قبائل کے رئیس تھے -
حسان بن عبدالکلال الحمیری نے یمنی قبائل کے لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائ کی اسکا مقصد یہ تھا کہ وہ پتھر جن سے حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام نے کعبہ شریف تعمیر کیا تھا انکو یہاں سے اکھیڑ کر لے جائیں اور ان پتھروں سے وھاں کعبہ تعمیر کریں اور لوگوں کو حکم دیں کہ وہ حج کرنے کے لۓ بجاۓ مکہ آنے کے یمن آئیں انکے بناۓ ھوۓ کعبہ کے ارد گرد طواف کریں اور دیگر مناسک حج بجا لائیں
جب قریش اور دیگر قبائل نے یہ دیکھا تو اسکے ساتھ فیصلہ کن جنگ کنے کے لۓ تیارھوگۓقریش اور اھل عرب کے لشکر کے سپہ سالار فہر تھے انکی قیادت میں گھمسان کی جنگ لڑی گئ جس میں حمیر کو شکست فاش ھوئ اور فہر کو شاندار کامیابی نصیب ھوئ
انکے قائد لشکر حسان بن عبدالکلال کو جنگی قیدی بنالیا گیا فہر کے بیٹے حارث نے اسے قید کیا تھا عربوں کا بھی کافی جانی نقصان ھوا فہر کے پوتے غالب بن فہر کے بیٹے قیس اس جنگ میں کام آۓ حسان تین سال تک مکہ میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رھا - آخر کار اس نے فدیہ ادا کرکے رھائ حاصل کی جب اپنے وطن واپس جا رہا تھا راستہ ھی میں اسے موت آگئ -
(تاریخ طبری)
Sunday, November 16, 2014
مالک
Unknown
0
comments


مالک
انکی والدہ کا نام عاتکہ تھا اور عکرشہ انکا لقب تھا -
مؤرخین نے لکھا ھے کہ نضر بن کنانہ کی اولاد کو قریش کہا جاتا ھے اور اسکی کئ وجوھات بیان کی گئ ھیں
- ایک وجہ یہ ھے کہ ایک روز نضر بن کنانہ اپنی قوم کی مجلس میں آۓ انکے پُرجلال چہرہ اور انکی وجاہت اور تمکنت کو دیکھ کر اھل مجلس ایک دوسرے کو دیکھ کر کہنے لگے اُنْظُرُوْا اِلٰی نَضْر کَاَ نَّہ، جَمْلُ قُرَیْشٍ (کہ نضر کی طرف دیکھو یوں معلوم ھوتا ھے گویا بڑا طاقتور سانڈ ھے )
- دوسری وجہ یہ بیان کی گئ ھے کہ قریش ایک بحری جانورکا نام ھے جو تمام چھوٹے چھوٹے سمندری جانوروں کو ھڑپ کرجاتا ھے کیونکہ بنو نضر قوت و ھیبت کی وجہ سے سب پر چھا جاتے تھے اس لۓقریش کے لقب سے ملقب ھوۓ -
تیسری وجہ یہ بتائ گئ ھے نضر لوگوں کی ضروریات کے بارے میں ان سے دریافت کیا کرتے اور ان کو پورا بھی کیا کرتے - اس لۓ ان کو قریش کیا گیا جو قرش سے ماخوذ ھے اور اسکے معنی تفتیش کرنا ھے - اپنے والد کی طرح نضر کی اولاد بھی موسم حج میں حجاج کے پاس جاتی - یہ لوگ انکی خیریت دریافت کرتے انہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو انہیں مہیا کرتے اس لۓ انہیں اس لقب سے نوازا گیا
- بعض کی راۓ یہ ھے کہ نضر کا نام قریش تھا اس لۓ انکی اولاد قریش کہلائ -
مؤرخین کہتے ہیں بیشک نضر اور اسکی اولاد میں غریب پروری اورمسافر نوازی کی صفات تھیں اس وجہ سے انہیں بنو نضرھی کیا جاتا تھا - یہ قبیلہ قریش کے لقب سے اس وقت معروف ھوا جب قصیٰ نے اطراف عرب میں سے اپنے قبیلہ کے بکھرے ھوۓ افراد اور خاندانوں کو مکہ میں اکٹھا کیا اس وقت لوگوں نے کہا
تُقَرِّشُ بَنُوْ نُضَرْ اَیْ تَجْمَعُوْا
یعنی نضر کی اولاد مجتمع ھوگئ ھے
ابن ھشام لکھتے ھیں -
" قریش کا لفظ تقرش سے ماخوذ ھے اسکا معنی ھے تجارت کرنا ، کاروبار کرنا کیونکہ اس خاندان کا کسب معاش کا ذریعہ تجارت اور کاروبار تھا انکے قافلے دوردراز ملکوں تک تجارتی سامان لے کر جاتے تھے اور ضرورت کا سامان لے کر واپس مکہ مکرمہ آتے تھے اس لۓ یہ قریش کے لقب سے معروف و مشہور ھوۓ -"
(الروض ا لا نف)
Tuesday, November 11, 2014
نضر
Unknown
0
comments


نضر
انکا نام قیس تھا اور اپنے چہرے کی دمک اورحسن وجمال کی وجہ سےیہ نضر کے لقب سے مشہور ھوۓ - انکی والدہ کا نام برہ بنت مر بن ادبن طانجہ تھا -
انکی والدہ کے بارے میں ایک غلط بات مشہور ھوگئ ھے جسکا ازالہ ضروری ھے - کہتے ھیں کہ انکی والدہ برہ بنت مر پہلے نضر کے دادا خزیمہ کی منکوحہ تھیں - خزیمہ کی وفات کے بعد انکے والد کنانہ نے عرب کے رواج کے مطابق ان سے بیاہ کرلیا - اسکے نتیجے میں نضر کی ولادت ھوئ بیٹے کا باپ کی بیوہ سے نکاح کرنا اگرچہ وہ اسکی سگی ماں نہ ھومکروہ اور قبیح فعل ھے -اسلۓ وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام اور پیغمبراسلام کے ساتھ بغض کی بیماری ھے وہ حضور ﷺ کے نسب پاک پر طعنہ زنی کرنے کے لۓ اس واقعہ کو بہت اچھالتے ھیں -
قارئین کی خدمت میں علماۓ محققین میں سے ابوعثمان الجاحظ کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ھے جس سے حقیقت حال واضح ھوجاۓ گی - جاحظ ایک آزاد منش محقق تھے اپنی تحقیق سے جس بات کی حقانیت ان پرواضح ھوجاتی اس کے اظہارمیں وہ بڑے بے باک تھے اور کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے تھے- وہ لکھتے ھیں -
"کنانہ کے والد خزیمہ کا جب انتقال ھوا تو زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق انہوں نے اپنے باپ کی بیوہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا لیکن وہ جلد ھی فوت ھوگئیں - ان کے شکم سے نہ کوئ بیٹا پیدا ھوا اور نہ کوئ بیٹی پیدا ھوئ اسکے بعد کنانہ نے اپنی پہلی بیوی کے بھائ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کیا جسکا نام برہ بنت مُر بن اُدبن طانجہ ھے انکے شکم سے کنانہ کے فرزند نضر پیدا ھوۓ بہت سے لوگوں نے جب یہ سنا کہ کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو اپنی زوجیت میں لیا ھے تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ھوگۓ کہ کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو زوجیت میں لے لیا اور اسکے شکم سے نضر پیدا ھوا - اور اس غلط فہمی کی وجہ یہ ھے کہ دونوں بیویوں کے نام بھی ایک تھے اور انکا باہمی رشتہ بھی بہت نزدیک تھا لیکن ھم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتےھیں اس سے کہ اس غلط فہمی میں مبتلا ھوں کہ نبی کریم ﷺ کے نسب پاک پر ناپسندیدہ اور مبغوض نکاح کا داغ لگائیں حالانکہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ھے کہ میں ابتداء سے آخر تک اسلامی نکاح کے مطابق ایک پشت سے دوسری پشت میں منتقل ھوتا رھا - "
(السیرۃ النبوۃ از زینی دحلان)
جو شخص اس تحقیق کے علاوہ کچھ کہتا ھے گویا اس نے حضور ﷺ کے اس فرمان میں شک کیا اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لۓ ھیں جس نے اپنے حبیب کی ذات کو اور آپ ﷺ کے سارے آباؤواجداد کو ھر قسم
کے عیبوں سے اور داغوں سے پاک صاف رکھا -
(ضیاءالنبی ﷺ)
Monday, November 10, 2014
کِنانہ
Unknown
0
comments


کِنانہ
کنانہ کے بارے میں بھی امام طبری نے لکھا ھے کہ انکی والدہ کا نام عوانہ بنت سعد بن قیس بن عیلان تھا اور بعض نے کہا ھے کہ انکی والدہ کا نام ھند بنت عمرو بن قیس تھا -
امام محمد بن یوسف انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ کنانہ کا معنی ترکش ھے جسطرح ترکش تیروں کو اپنے اندر چھپا لیتا ھے اسی طرح انہوں نے بھی اپنی ساری قوم کواپنے جودوکرم کے دامن سے چھپا لیا تھا اس لۓ انکا یہ نام مشہور ھوا -" عامر العدواتی نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ھوۓ فرمایا اے میرے فرزند ! میں نے کنانہ بن خزیمہ کواس حالت میں دیکھا کہ وہ بہت زیادہ بوڑھے ھوچکے تھےاور انکے علم وفضل کی وجہ سےاہل عرب دوردراز سے انکی زیارت کے لۓ آتے تھے انہوں نے ان کو کہا
" مکہ سے ایک نبی کے ظاہر ھونے کا وقت قریب آگیا ھے انکا نام نامی احمد ھوگا وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دیں گے نیکی ، احسان اور مکارم اخلاق کی تلقین فرمائیں گے پس اے اھل عرب ! تم اس نبی مکرم کی پیروی کرنا - اس سے تمہاری عزت و شرف میں اضافہ ھوگا -"
یہی مصنف اس کے بعد فرماتے ھیں-
"کہ ایک روز کنانہ حطیم میں سو رہے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا انہیں کہا گیا کہ ان چار چیزوں میں سےایک چن لو - گھوڑے ، اونٹ ، تعمیرات اور دائمی عزت -
آپ نے عرض کی اے میرے رب ! مجھے یہ ساری نعمتیں عطا فرما -"
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کے طفیل قریش کو یہ ساری نعمتیں عطا فرمائیں - "
(سبل الہدیٰ و الرشاد ، ضیاء النبی ﷺ )
خُزیمہ
Unknown
0
comments


خُزیمہ
انکے بارے میں اتنا ھی معلوم ھوسکا ھے کہ انکی والدہ کا نام سلمیٰ بنت اسلم تھا - انکے سگے بھائ کا نام ھزیل تھا - ماں کی طرف سے بھی انکا ایک بھائ تھا ، جسکا نام تغلب بن حلوان تھا -
(تاریخ طبری)
امام محمد بن یوسف الصالحی انکے بارے میں لکھتے ھیں
"لوگوں پر انکے انعامات واحسانات کا شمار نہیں کیا جاسکتا انکے فضائل ومکارم کے بارے میں کسی نے خوب کہا ھے فضائل و مکارم جتنے تھےوہ تو سب کے سب تیزی سے خزیمہ کی ذات میں جمع ھوگۓ ہیں اور ان میں سے کوئ بھی مکرمت باقی نہیں رہ گئ -"
(تاریخ طبری)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ھے؛
"خزیمہ کی وفات ملت ابراھیمی پر ھوئ"-
(سبل الہدیٰ و الرشاد)
Sunday, November 9, 2014
مدرکہ
Unknown
0
comments


مدرکہ
علامہ طبری لکھتے ھیں ان کا اصل نام عمرو تھا - انکی والدہ خندف کے لقب سے مشہور تھیں انکا نام لیلیٰ بنت حلوان تھا - یہ یمن کے ایک قبیلے کی نیک خاتون تھیں اور اپنے اوصاف و شمائل کی وجہ سے بڑی قدرواحترام سے دیکھی جاتی تھیں یہاں تک کہ انکی اولاد کو باپ کے بجاۓ انکی (ماں) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا - ایک روز عمرو اور عامر جنگل میں اونٹ چرا رہے تھے کہ انہیں شکار مل گیا وہ اسے پکانے میں مصروف ھو گۓ اچانک ایک خرگوش چھلانگیں لگاتا ھوا وھاں سے گزرا اونٹ اس سے بدکے اور بھاگ کھڑے ھوۓ -
عمرو نے عامر سے پوچھا اونٹوں کے پیچھے جاؤگے یا شکار پکاؤگے ؟ اس نے شکار پکانے کی ہامی بھر لی - عمرو اونٹوں کے پیچھے دوڑے اور انہیں جا پکڑا اور ہانک کر واپس لاۓ شام کو دونوں واپس آۓ باپ کو واقعہ سنایا انہوں نے عمرو کو کہا انت مدرکہ اور عامر کو کہا انت طانجہ - اور دونوں انہیں ناموں سے مشہور ھوگۓ -
(تاریخ طبری)
الیاس
Unknown
0
comments


الیاس
یہ قبائل عرب کے سربراہ اور سردار تھے اھل عرب انہیں سید العشیرہ کے لقب سے ملقب کیا کرتے تھے جملہ فیصلہ طلب امور ان کی خدمت میں پیش کۓ جاتے - سب سے پہلے قربانی کا جانور لے کر بیت اللہ شریف جانے والے یہی ھیں
حدیث شریف
الیاس کو برا بھلا مت کہو وہ مومن تھے اھل عرب میں انکی مثال ایسی تھی جیسے لقمان حکیم
اپنی قوم میں -
(السیرۃ النبویہ)
آپ کا حکیمانہ کلام
- جو خیر کو بوتا ھے وہ خوشی کی فصل کاٹتا ھے
- جو برائ کو بوتا ھے وہ ندامت کی فصل کا ٹتا ھے
قبیلہ کے سارے مردوزن آپکی دل سے تعظیم کرتے اور آپکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے -
(سبل الہدیٰ و الرشاد)
Sunday, November 2, 2014
مُضَر
Unknown
0
comments


مُضَر
آپکی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے
لانہ کان یمضر القلوب ای یاخذھا لحسنہ و جمالہ ولم یرہ احد الا احبہ لما کان یشاھد فی وجھہ من نور النبی
"یعنی یہ اپنے حسن وجمال کی وجہ لوگوں کو اپنا شیدائ بنا لیتے تھے جوشخص بھی ان کو دیکھتا تھاان پر فریقتہ ہو جایا کرتا تھا - کیونکہ ان چہرے پر بھی نور مصطفوی ﷺ کے جلوے ضوفشاں ہوا کرتے تھے "-
(السیرۃ النبویہ )
مُضَر کے حکیمانہ اقوال
- بہترین بھلائ وہ ہے جو فوراً کی جاۓ
اپنے نفسوں کو مشکل باتوں کا خوگر بناؤ اور ہوا و ہوس سے انکا رخ پھیرے رکھو-
فہم و فراست
یہ چار بھائ تھے -مضر ، ربیعہ ، ایاد ، انمار- انکے والد نزار جب فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی اے میرے بیٹوں! یہ سرخ رنگ کا قبہ اور اس سے متعلقہ چیزیں ایاد کی ہیں - ندوہ ' مجلس اور اس سے متعلقہ چیزیں انمار کی ہیں اگر کسی بات پر تم میں اختلاف پیدا ہو تو تصفیہ کے لۓ نجران کےافعیٰ جرہمی کے پاس جانا ااور اس سے اپنے جگھڑے کا فیصلہ طلب کرنا -
اتفاق سے تقسیم جائداد میں باہمی اختلاف پیدا ہو گیا باپ کی وصیت کے مطابق وہ نجران روانہ ہوۓ تاکہ افعیٰ جرہمی سے اس تنازعہ کا فیصلہ کرائیں- اثناۓ سفر مضر نے گھاس دیکھی جس کو کسی اونٹ نے چرا تھا کہنے لگے جس اونٹ نے اس گھاس کو چرا ھے وہ کانا ھے - ربیعہ نے کہا وہ لنگڑا ھے -ایاد نے کہا وہ دم بریدہ بھی ھے - انمار نے کہا وہ بھاگا ھوا ھے
اس گفتگو کے بعد وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے کجاوہ سر پر اٹھایا ھوا تھا اس نے ان سے اپنے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا مضر نے کہا کیا وہ کانا ھے اس نے کہا ھاں- ربیعہ نے کہا کیا وہ لنگڑا ھے اس نے کہا ھاں - ایاد نے کہا کیا وہ دم کٹا ھے اس نے کہا ھاں- انمار نے کہا کیا وہ بھاگا ھوا ھے اس نے کہا ھاں - خدارا مجھے بتائیں میرا اونٹ کہاں ھے ؟ انہوں نے کہا بخدا ھم نے اس کو نہیں دیکھا بدو نے کہا یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ دیکھے بغیر اس کے سارے نشانات بتادیے ھیں وہ بھی انکے ساتھ چل پڑا کہ افعیٰ سے اپنے اونٹ کا فیصلہ کراۓ -
جب اسکے پاس پہنچے تو سب سے پہلے اونٹ کے مالک نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ ان لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ھے لیکن مجھے بتاتے نہیں - کہتے ھیں ھم نے دیکھا ھی نہیں افعیٰ نے ان سے پوچھا اگر آپ لوگوں نے اسے دیکھا نہیں - تو اسکی ساری نشانیاں کیسے گنوادیں ھیں
مضر نے کہا میں نے جب اس گھاس کو دیکھا جسکو اس نے چرا ھے تو وہ اہک طرف سے چری ھوئ تھی دوسری طرف سے جوں کی توں لہلہا رھی تھی میں نے سمجھ لیا کہ وہ کانا ھے جو دیکھا ھے اسے چر لیا اور دوسری طرف جو اس نے نہیں دیکھی چھوڑ دی-
ربیعہ نے کہا کہ اس کے ایک پاؤں کے نشان با لکل واضح تھے دوسرے پاؤں کے نشان ادھورے تھے میں نے سمجھ لیا کہ یہ لنگڑا ھے -
ایاد نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی مینگنیاں صحیح سالم ھیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کی دم کٹی ھوئ ھے ورنہ اس کی مینگنیاں ٹوٹی ھوئ ھوتیں
انمار نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس نے گنجان گھاس چرنے کے لۓ منہ ڈالا ھے لیکن اسے ادھورا چھوڑ کر آگے نکل گیا ھے میں نے سمجھا کہ وہ بھاگا ھوا ھے اس لۓ اطمینان سے گھاس کو نہیں چر رھا-
یہ سن کر جرھمی نے اونٹ کے مالک سے کہا کہ جاؤ اپنا ااونٹ تلاش کروانکے پاس تمہارا اونٹ نہیں ھے پھر اس نے پوچھا آپ لوگ کون ھیں اور کیوں آۓ ھیں ؟ انہوں نے کہا ھم نزار بن معد کے فرزند ھیں اور اپنے باہمی جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لۓ تمہارے پاس آۓ ھیں اس نے کہا بڑے تعجب کی بات ھے اس فہم وذکا کے مالک ھوتے ھوۓ آپ میرے پاس آۓ ھیں پھر اس نے انکی پرتکلف دعوت کی - آخر میں شراب پیش کی کھانے پینے سے فارغ ھوۓ تو مضر نے کہا ایسی بہترین شراب عمر بھر کبھی نہیں پی کاش! اسکے انگور کی بیل قبر پر نہ اُگی ھوتی -
ربیعہ نے کہا ایسا لذیذ گوشت آج تک نہیں کھایا کاش! اس بکری کی پرورش کُتّی کے دودھ سے نہ کی گئ ھوتی -
ایاد نے کہا میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا کاش! اس کی نسبت غیر باپ کی طرف نہ کی گئ ھوتی -
انمار نے کہا میں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی جو ھمارے مقصد کے لۓ مفید ھو-
جرھمی نے انکی باتیں سنیں اور تصویرحیرت بن کر رہ گیا وہ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا سچ بتاؤ میں کس کا بیٹا ھوں ؟ اس نے بتایا کہ میں ایک سردار کی منکوحہ تھی وہ لاولد تھا میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ لاولد مرجاۓ چنانچہ میں نے ایک شخص سے بد فعلی کی جس سے تو پیدا ھوا اس نے اپنے ناظم مطبخ سے شراب کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا کہ میں نے تیرے باپ کی قبر پر انگور کی ایک بیل لگائ تھی اس کے انگوروں سے یہ شراب کشید کی گئ اس نے اپنے چرواھے سے گوشت کے بارے میں دریافت کیا اس نے بتایا کہ بکری نے بچہ جنا اور مرگئ میں نے اس بچہ کی پرورش کُتّی کے دودھ سے کی جرھمی ان کی ذھانت اور فطانت دیکھ کرحیران رہ گیا پھر اس نے دعویٰ سنا اور اسکا فیصلہ دیا -
اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اللہ کریم نے اپنے روؤف رحیم نبی کے اجداد کو جمال صورت ، حسن صورت کے ساتھ فہم وفراست کا وہ بے پایاں ملکہ عطا فرمایا تھا جسے دیکھ کر زمانہ کے دانش ور پھڑک اُٹھتے تھے -
(اعلام النبوۃ المادردی ، تاریخ طبری)
اس گفتگو کے بعد وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے کجاوہ سر پر اٹھایا ھوا تھا اس نے ان سے اپنے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا مضر نے کہا کیا وہ کانا ھے اس نے کہا ھاں- ربیعہ نے کہا کیا وہ لنگڑا ھے اس نے کہا ھاں - ایاد نے کہا کیا وہ دم کٹا ھے اس نے کہا ھاں- انمار نے کہا کیا وہ بھاگا ھوا ھے اس نے کہا ھاں - خدارا مجھے بتائیں میرا اونٹ کہاں ھے ؟ انہوں نے کہا بخدا ھم نے اس کو نہیں دیکھا بدو نے کہا یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ دیکھے بغیر اس کے سارے نشانات بتادیے ھیں وہ بھی انکے ساتھ چل پڑا کہ افعیٰ سے اپنے اونٹ کا فیصلہ کراۓ -
جب اسکے پاس پہنچے تو سب سے پہلے اونٹ کے مالک نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ ان لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ھے لیکن مجھے بتاتے نہیں - کہتے ھیں ھم نے دیکھا ھی نہیں افعیٰ نے ان سے پوچھا اگر آپ لوگوں نے اسے دیکھا نہیں - تو اسکی ساری نشانیاں کیسے گنوادیں ھیں
مضر نے کہا میں نے جب اس گھاس کو دیکھا جسکو اس نے چرا ھے تو وہ اہک طرف سے چری ھوئ تھی دوسری طرف سے جوں کی توں لہلہا رھی تھی میں نے سمجھ لیا کہ وہ کانا ھے جو دیکھا ھے اسے چر لیا اور دوسری طرف جو اس نے نہیں دیکھی چھوڑ دی-
ربیعہ نے کہا کہ اس کے ایک پاؤں کے نشان با لکل واضح تھے دوسرے پاؤں کے نشان ادھورے تھے میں نے سمجھ لیا کہ یہ لنگڑا ھے -
ایاد نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی مینگنیاں صحیح سالم ھیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کی دم کٹی ھوئ ھے ورنہ اس کی مینگنیاں ٹوٹی ھوئ ھوتیں
انمار نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس نے گنجان گھاس چرنے کے لۓ منہ ڈالا ھے لیکن اسے ادھورا چھوڑ کر آگے نکل گیا ھے میں نے سمجھا کہ وہ بھاگا ھوا ھے اس لۓ اطمینان سے گھاس کو نہیں چر رھا-
یہ سن کر جرھمی نے اونٹ کے مالک سے کہا کہ جاؤ اپنا ااونٹ تلاش کروانکے پاس تمہارا اونٹ نہیں ھے پھر اس نے پوچھا آپ لوگ کون ھیں اور کیوں آۓ ھیں ؟ انہوں نے کہا ھم نزار بن معد کے فرزند ھیں اور اپنے باہمی جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لۓ تمہارے پاس آۓ ھیں اس نے کہا بڑے تعجب کی بات ھے اس فہم وذکا کے مالک ھوتے ھوۓ آپ میرے پاس آۓ ھیں پھر اس نے انکی پرتکلف دعوت کی - آخر میں شراب پیش کی کھانے پینے سے فارغ ھوۓ تو مضر نے کہا ایسی بہترین شراب عمر بھر کبھی نہیں پی کاش! اسکے انگور کی بیل قبر پر نہ اُگی ھوتی -
ربیعہ نے کہا ایسا لذیذ گوشت آج تک نہیں کھایا کاش! اس بکری کی پرورش کُتّی کے دودھ سے نہ کی گئ ھوتی -
ایاد نے کہا میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا کاش! اس کی نسبت غیر باپ کی طرف نہ کی گئ ھوتی -
انمار نے کہا میں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی جو ھمارے مقصد کے لۓ مفید ھو-
جرھمی نے انکی باتیں سنیں اور تصویرحیرت بن کر رہ گیا وہ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا سچ بتاؤ میں کس کا بیٹا ھوں ؟ اس نے بتایا کہ میں ایک سردار کی منکوحہ تھی وہ لاولد تھا میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ لاولد مرجاۓ چنانچہ میں نے ایک شخص سے بد فعلی کی جس سے تو پیدا ھوا اس نے اپنے ناظم مطبخ سے شراب کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا کہ میں نے تیرے باپ کی قبر پر انگور کی ایک بیل لگائ تھی اس کے انگوروں سے یہ شراب کشید کی گئ اس نے اپنے چرواھے سے گوشت کے بارے میں دریافت کیا اس نے بتایا کہ بکری نے بچہ جنا اور مرگئ میں نے اس بچہ کی پرورش کُتّی کے دودھ سے کی جرھمی ان کی ذھانت اور فطانت دیکھ کرحیران رہ گیا پھر اس نے دعویٰ سنا اور اسکا فیصلہ دیا -
اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اللہ کریم نے اپنے روؤف رحیم نبی کے اجداد کو جمال صورت ، حسن صورت کے ساتھ فہم وفراست کا وہ بے پایاں ملکہ عطا فرمایا تھا جسے دیکھ کر زمانہ کے دانش ور پھڑک اُٹھتے تھے -
(اعلام النبوۃ المادردی ، تاریخ طبری)
حدیث مبارکہ
- ربیعہ اور مضر کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ دونوں مومن تھے -
- مضر کو برا بھلا نہ کہو وہ حضرت اسماعیل کے دین پر تھا -
(السیرۃ النبو یہ)
نننننن