Sunday, November 30, 2014

عبدِ مناف

0 comments

عبدِ مناف

ان کا نام مغیرہ تھا انکے حسن و جمال کی وجہ سے انہیں قمرالبطحاء ( بطحا کا چاند ) کہا جاتا تھا 

انکے بارے میں آلوسی لکھتے ہیں -

                     " انکو انکے حسن و جمال کی وجہ سے بطحا کا چاند کہا جاتا تھا - حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ھیں کہ انہیں ایک پتھر ملا - جس پر یہ عبارت کندہ تھی - میں مغیرہ بن قصی ہوں میں قریش کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کریں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کریں - آپ بتوں سے بغض رکھتے تھے اور نبی کریم ﷺ کا نور انکے چہرے پر چمکتا تھا - "

                                                        
                                                        (بلوغ الارب)

       اپنی سخاوت اور غیر معمولی سیاسی فہم وفراست کی وجہ سے اپنے والد کے بعد یہی اپنی قوم کے سردار مقرر ہوۓ انکے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے -

           " قریش ایک انڈہ کی مانند ھیں اور جب اسے پھوڑا گیا تو اسکا مغز اور جوہر عبد مناف ہیں -"

وجہ تسمیہ

                  مناف کا معنی ہے بلند و بالا ہونا - اسی وجہ سے آپ عبد مناف کے لقب سے مشہور ھوۓ - کیونکہ اپنے خصائل و مکارم کے باعث یہ اپنے ہمعصروں سے اعلیٰ وارفع تھے - 

                                         (سبل ا لہدیٰ)

Wednesday, November 26, 2014

قُصی

0 comments

قُصی

             انکا نام زید تھا 400ء کے لگ بھگ پیدا ھوۓ -
      یہ قبیلہ قریش کے عالم تھے اور انکو راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی تاکید کرتے رہتے یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کرتے اس وقت اس دن کو یوم العروبہ کہا جاتا تھا - انہیں وعظ و نصیحت کرتے اور انہیں آگاہ کرتے کہ عنقریب ان میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ھے جب وہ تشریف لاۓ تو اس کی دعوت کو قبول کرنے میں پس و پیش نہ کرنا فوراً اس پر ایمان لے آنا - اگرچہ عمر بن لُحّی الخزاعی کی بد بختی کے باعث اصنام پرستی کی بیماری اہل مکہ اور اہل عرب میں بھی قبول عام حاصل کر چکی تھی لیکن آپ اپنے خطبات میں اپنی قوم کو اصنام پرستی سے باز رینے کی تلقین کرتے -

                       (بلوغ الارب )

           انکا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی انکو قصی کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب انکے والد کلاب انتقال کر گۓ تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ فاطمہ بنت سعد اور دو بچے چھوڑے بڑے بچے کا نام زہرہ تھا - دوسرے یہ زید تھے جو اس وقت بہت کم سن تھے - ربیعہ بن حرام بن ضبہ نے انکی والدہ فاطمہ کے ساتھ نکاح کر لیا جب وہ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر وطن لوٹنے لگا تو بڑے بھائ زہرہ کو مکہ میں چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ جوان ھو رہے تھے اور زید کو کم سنی کی وجہ سے پیچھے چھوڑنا گوارا نہ کیا اپنے وطن " عزرہ " جو شام کی سرحد کے قریب ھے واپس جانے لگا تو زید کو ساتھ لے گیا - 
                         آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائ سال اسی علاقے میں گزارے ایک روز بنی قضاعہ کے کسی لڑکے نے انہیں غریب الوطنی کا طعنہ دیا جسے سن کر آپ کو بڑا دکھ ھوا اور افسردہ خاطر ھوکر اپنی ماں کے پاس آۓ اور ان سے حقیقت حال دریافت کی - ماں نے کہا بیٹا آزردہ ھونے کی کیا بات ھے تو ایسے خاندان کا چشم و چراغ ھے جسکی سارے عرب میں عزت و تکریم کی جاتی ھے - تو اپنی ذات اور نسب کے اعتبار سے یہاں کے سب لوگوں سےاعلیٰ و ارفع ھے - تو قریش کے مشہور سردار کلاب بن مرہ کا بیٹا ھے تیرا قبیلہ مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ھے 
                                  انہوں نے کہا ماں ، میں اب یہاں نہیں رہ سکتا مجھے اجازت دو کہ میں اپنے قبیلہ والوں کے پاس چلا جاؤں مجھ سے غریب الوطنی کے طعنے نہیں سنے جاسکتے ماں نے کہا بیٹا تھوڑی دیر انتظار کرو جب حج کے مہینے آجائیں گے یہاں سے حجاج کو جو قافلہ جاۓ گا انکی معیت میں مکہ چلے جانا - سلامتی سے اپنے وطن پہنچ جاؤگے چنانچہ جب حج کا موسم آیا تو یہاں کے حا جیوں کی معیت میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ھو گۓ

              کیونک آپکے بچپن کا سارا زمانہ اپنے وطن سے بہت دور گزرا تھا اس لۓ یہ قصی " دور افتادہ " کے نام سے مشہور ھوگۓ

                        (طبقات ابن سعد )

                                   کعب بن لوئ کی اولاد سے قصی پہلا شخص ہے جسکو حکومت ملی - اور ساری قوم نے برضا و رغبت جسکی اطاعت قبول کی - قوم نے قصی کو حجابہ ، رفادہ ، سقایا ، ندوہ ، اور اللواء پانچوں مناصب سپرد کردۓ تھے -آئیں ھم دیکھتے ہیں کہ ان پانچوں منا صب سے کیا مراد ہے؟

"حجابہ"

                یہ ایک جلیل القدر منصب تھا اس سے مراد کعبہ شریف کی خدمت کے فرائض انجام دینا تھا - یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جس قبیلہ کو یہ منصب تفویض کیا جاتا بیت اللہ شریف کی کنجیاں بھی اسکے حوالے کر دی جاتیں - کعبہ کے دروازے کو کھولنا اور بند کرنا اسکی ذمہ داری ھوتی - کعبہ میں جو اما نتیں رکھی جاتیں نذرانے کے طور پرلوگ جو قیمتی تحائف ، زیورات وغیرہ پیش کرتے انکی حفاظت بھی اسی کی ذمہ داری ھوتی -

"رفادہ"

                قصی نے مکہ مکرمہ کی زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی قوم کو جمع کیا اورانکے سامنے تقریر کرتے ھوۓ کہا کہ حاجی اللہ کے مہمان اور اسکے گھر کے زائر ھوتے ھیں وہ ایسے مہمان ہیں جن کی ضیافت اور میزبانی ہمارا فریضہ ھے تم سب اپنے مالوں سے حصہ دو - تاکہ ایک ایسا اجتماعی فنڈ قائم کیا جاۓ جس سے ضیوف الرحمٰن کی عزت وتکریم اور انکی مہمان نوازی کی جا سکے - ساری قوم نے اس تجویز کو سراہا اور دل کھول کر اس میں مالی اعانت کی - چنانچہ ایام حج میں سارے حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام اس فنڈ سے کیا جاتا -
                            
                               (طبقات ابن سعد)

اسلام کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی عہد رسالت ، عہد خلفاۓ راشدین حتیٰ کہ بنی امیہ اور بنی عباس کی خلافتوں کے دور میں بھی حجاج کی ضیافت کا یہ سلسلہ جاری رہا - جب عباسی خلافت کا چراغ گل ہوا تو رفادہ کا یہ انتظام بھی درہم برہم ھوگیا -
                  (ضیا ء النبی ﷺ )

"سقایہ"

حجاج کو پانی پلانے کا منصب - حج کے موسم میں قریش پانی کے ذخائر جمع کرتے اور ان میں زبیب (کشمش ) ڈالتے جس سے پانی کا ذائقہ میٹھا ھو جاتا اور حج کے ایام میں تمام حاجیوں کو پینے کے لۓ یہ پانی پیش کیا جاتا - 

"ندوہ"

اسے آج کی اصطلاح میں پارلیمنٹ ہاؤس یا مجلس شوریٰ کہ سکتے ہیں دارالندوہ ایک وسیع عمارت تھی جس کا دروازہ حرم شریف میں کھلتا تھا اس میں اہل مکہ کے نمائندے جمع ہوتے اور پیش آمدہ سیاسی ، معاشی ، عمرانی مسائل کے بارے میں مشورے کرتے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے 
                        اسکی رکنیت کے لۓ بنیا دی شرط یہ تھی کہ کسی رکن کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہو - انکی سماجی تقریبات یہاں ہی انجام پذیر ھوتیں -
                                                 ( الروض الانف )

"اللواء"

اسے موجودہ دور کی وزارت دفاع کا ہم معنی کہ سکتے ھیں یہ منصب بھی قصی نے ایجاد کیا جب کوئ اجتماعی خطرہ درپیش ہوتا تو قومی علم کا علمبردار اسکو کھلے میدان میں گاڑ دیتا یہ گویا اسکی طرف سے اعلان ہوتا کہ اے اہل وطن ! اپنے وطن اور قوم کی آزادی کو جو خطرہ درپیش ہے اسکا تدارک کرنے کے لۓ سربکف میدان میں نکل آؤ - جب علم لہرانے کا واقعہ رونما ہوتا قریش کے سارے سرداربلا استثناء جمع ہوجاتے -
              عرب کے آزاد اور خودسر معاشرے میں ان اداروں کو قائم کرکے قصی نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا - اہل عرب کو نظم و ضبط کا پابند اور خوگر بنانے کے لۓ یہ پہلی کامیاب کوشش تھی - کعبہ کی جو عمارت سیدنا ابراھیم اور اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر کی تھی وہ زمانہ دراز گزر جانے کے باعث بوسیدہ ھو رہی تھی - قصی نے اسکو گراکر کعبہ کو ازسرنوتعمیر کیا - یہ شرف بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد قصی کو نصیب ہوا - 
                                      ( ضیاء النبی ﷺ)

                  قصی کے چار فرزند تھے بڑے بیٹے کا نام عبدالدار تھا - ان سے چھوٹے عبد مناف تھے اگرچہ عمر کے لحاظ سے عبدالدار بڑے تھے لیکن عبد مناف کی ذاتی خوبیوں کے باعث ساری قوم انکی گرویدہ اور دلدادہ تھی - انکی جودوسخا کے باعث قریش انکو الفیاض کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے- 
امام محمد بن یوسف الصا لحی رقمطراز ہیں -
                        "کہ قصی نے اپنے مناصب کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا - سقایہ اور ندوہ عبد مناف کو تفویض کیا انکی ذریت سے سرور عالم ﷺ ہوۓ اور حجابہ اور لواء عبدالدار کو دیا یعنی خانہ کعبہ کی خدمت اور جھنڈا اور ایام منیٰ میں حاجیوں کی میزبانی کا فریضہ عبدالعزیٰ کو سونپا انکی اجازت کے بغیر کوئ اپنا چولہا گرم نہیں کر سکتا تھا - اور وادی کی حفاظت کی ذمہ داری عبد قصی کو سونپی -"
                                                               (سبل الہدیٰ )
آپ کی وفات کے بعد آپکو حجون میں دفن کیا گیا اور اسکے بعد سارے لوگ اپنی میّتوں کو وہیں دفن کرنے لگے - 

قصی کے حکیمانہ اقوال

  • جس نے کسی سفلہ مزاج اور کمینہ خصلت آدمی کا احترام کیا گویا اسکی کمینگی میں حصہ دار ہے -
  • جو شخص کسی قبیح چیز کو مستحسن سمجھتا ہے وہ اس قبیح چیز کے حوالے کردیا جاتا ہے - 
  • عزت وتکریم سے جسکی اصلاح نہیں ہوتی ذلت و رسوائ اسکی اصلاح کر دیتی ہے -
  • جس نے اپنے حق سے زیادہ طلب کیا وہ محرومی کا حقدار ہے - 
  • حاسد تیرا چھپا ہوا دشمن ہے -
  • شراب سے اجتناب کرنا کیونکہ یہ بدن کو تو درست کرتی ہے لیکن ذہن کو برباد کر دیتی ہے -
                                 ( السیرۃ النبویہ )




    

Tuesday, November 25, 2014

کلا ب

0 comments

کلا ب


انکی کنیت ابو زہرہ تھی - انکا نام حکیم ھے اور بعض نے عروہ بتایا ہے انکو کلاب کے لقب سے ملقب کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کتوں کے ساتھ بکثرت شکار کیا کرتے تھے - اور حضرت سیدہ آمنہ کے یہ تیسرے دادا تھے - یہاں آکر حضور ﷺ کے والد ماجد  اوروالدہ ماجدہ کا نسب جمع ہوجاتا ھے اور مشہور یہ ھے کہ عربی مہینوں کے موجودہ نام انہوں نے تجویز کۓ تھے - 

                     (محمد رسول اللہ ﷺ )

Monday, November 24, 2014

مّرہ

0 comments

مّرہ


                  ان کی کنیت ابو یقظہ تھی - یہ حضورﷺ کے نسب میں چھٹے دادا ہیں اسی طرح حضرت صدیق اکبر کے بھی چھٹے دادا ھیں حضرت صدیق کا سلسلہ نسب یہاں آکر حضور ﷺ کے ساتھ مل جاتا ھے - 

                            (محمد رسول اللہ ﷺ )

Sunday, November 23, 2014

کعب

0 comments

کعب


                        حضور اکرم ﷺ کے اجداد کرام میں سے کعب کی شخصیت بڑی ممتاز تھی -وہ ہر جمعہ کو اپنے قبیلہ قریش کو جمع کرتے  - اور انہیں خطاب فرماتے - انکے خطبات انکے ایمان صادق کی عکاسی بلکہ تصدیق کرتے ھیں وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ، عرفان الٰہی کی اہمیت کا انہیں احساس دلاتے ، انہیں تلقین  کرتے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق ، گردش لیل ونہار اور دیگر مظاہر قدرت میں غور و فکر کریں عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت انہیں بخشی گئ ھے اسکو بے کار نہ رہنے دیں ، بلکہ اس سے کام لیں - گزشتہ قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کریں - صلہ رحمی ، وعدہ کی پابندی ، اور افشاء اسلام کو اپنا شعار بنائیں ، فقرا ء و مساکین کو صدقہ دیا کریں - وہ انہیں موت اور اسکی ھولنا کیوں کی یاد دلاتے روز محشر کے حالات سے انہیں آگاہ کرتے -
                                        انہیں حضور اکرم ﷺ کی بعثت کی بشارت دیتے اور یہ بتاتے کہ حضور ﷺ انکی اولاد سے ھونگے - اپنی قوم کو تاکید فرماتے کہ اگر انہیں حضور ﷺ کا عہد نصیب ھو تو فوراً ایمان لائیں - اور ایسے شعر
پڑھتے جن سے اس محبت و وارفتگی کی خوشبو آتی جو حضور ﷺ سے ان کے دل میں موجزن رھتی تھی - اور اس شوق کا اظھار ھوتا ھے کہ کاش انہیں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ھو اور وہ حضور ﷺ کی دعوت کو
عام کرنے کے لۓ اپنی ساری قوتیں وقف کردیں - 


                                  (ضیاء النبی ﷺ)


کعب کی موت اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے درمیان پانچ سو ساٹھ سال کا عرصہ ھے - انکے ارشادات اس بات کی گواہی دیتے ھیں کہ وہ دین ابراھیمی پر کاربند تھے - 


ابن اثیر لکھتے ھیں ----؛

                        " کعب کی اھل عرب کے نزدیک بڑی قدرومنزلت تھی اھل عرب نے اپنی تاریخ کا آغاز انکے یوم وفات سے کیا عام فیل تک یہی سن تاریخ استعمال کرتے رھے - عام الفیل کے بعد اس واقعہ سے اھل عرب نے تاریخ کا کام لینا شروع کیا - وہ حج کے ایام میں لوگوں کو خطبہ دیا کرتے تھے اور آپ کا خطبہ مشہور ھے اس خطبہ میں سرکار دو عالم ﷺ کی بعثت کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا کرتے تھے - "

                                           (الکامل الابن اثیر)

                  ان میں حضرت فاروق اعظم کا سلسلہ نسب حضور ﷺ کے ساتھ مل جاتا ھے -


                       


Saturday, November 22, 2014

لوی

0 comments

لوی


انکی والدہ کا نام عاتکہ بنت یخلد بن نضر بن کنانہ تھا - قریش میں عاتکہ نام کی خواتین جنکا ذکر نبی رحمت ﷺ کے نسب شریف میں آتا ھے ان میں سے یہ پہلی عاتکہ ھیں لوئ کے دو سگے بھائ تھے ایک کا نام تیم تھا جن کی ٹھوڑی میں نقص کی وجہ سے تیم الادرم کہا جاتا تھا دوسرے بھائ کا نام قیس تھا انکی کوئ اولاد باقی نہیں - انکے خاندان کے آخری فرد نے خالد بن عبد اللہ القسری کے زمانہ میں وفات پائ انکے گھرانے کا کوئ فرد زندہ نہ تھا جو انکی میراث کا مستحق قرار پاتا -


                               (تاریخ طبری)

     " لوی کو اللہ تعالیٰ نے حلم اور حکمت کی صفات سے نوازا تھا - بچپن میں ھی ایسے جملے آپ کی زبان سے نکلتے تھے جو ضرب المثل بن جایا کرتے تھے - "


                          (سبل الہدیٰ و الرشاد)

غالب

0 comments

غالب


انکی کنیت ابو تیم تھی انکے دو بیٹے تھے ایک کا نام لوی اور دوسرے کا تیم تھا - بنو تیم کے قبیلہ کے جد اعلیٰ یہی تیم ھیں - جو غالب کے لڑکے تھے - 


فِہر بن مالک

0 comments

فِہر بن مالک


انکی والدہ کا نام جندلہ بنت عامر بن حارث بن مضاض الجرھمی تھا - یہ جَمّاع قریش کے لقب سے مشہور تھے اپنے زمانے میں وہ اہل مکہ اور ارد گرد بسنے والے قبائل کے رئیس تھے - 
                حسان بن عبدالکلال الحمیری نے یمنی قبائل کے لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائ کی اسکا مقصد یہ تھا کہ وہ  پتھر جن سے حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام نے کعبہ شریف تعمیر کیا تھا انکو یہاں سے اکھیڑ کر لے جائیں اور ان پتھروں سے وھاں کعبہ  تعمیر کریں اور لوگوں کو حکم دیں کہ وہ حج کرنے کے لۓ بجاۓ مکہ آنے کے یمن آئیں انکے بناۓ ھوۓ کعبہ کے ارد گرد طواف کریں اور دیگر مناسک حج بجا لائیں 
                    جب قریش اور دیگر قبائل نے یہ دیکھا تو اسکے ساتھ فیصلہ کن جنگ کنے کے لۓ تیارھوگۓقریش اور اھل عرب کے لشکر کے سپہ سالار فہر تھے انکی قیادت میں گھمسان کی جنگ لڑی گئ جس میں حمیر کو شکست فاش ھوئ اور فہر کو شاندار کامیابی نصیب ھوئ 
         انکے قائد لشکر حسان بن عبدالکلال کو جنگی قیدی بنالیا گیا فہر کے بیٹے حارث نے اسے قید کیا تھا عربوں کا بھی کافی جانی نقصان ھوا فہر کے پوتے غالب بن فہر کے بیٹے قیس اس جنگ میں کام آۓ حسان تین سال تک مکہ میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رھا - آخر کار اس نے فدیہ ادا کرکے رھائ حاصل کی جب اپنے وطن واپس جا رہا تھا راستہ ھی میں اسے موت آگئ -
                       
                          (تاریخ طبری)

Sunday, November 16, 2014

مالک

0 comments

مالک

انکی والدہ کا نام عاتکہ تھا اور عکرشہ انکا لقب تھا - 
مؤرخین نے لکھا ھے کہ نضر بن کنانہ کی اولاد کو قریش کہا جاتا ھے اور اسکی کئ وجوھات بیان کی گئ ھیں

  • ایک وجہ یہ ھے کہ ایک روز نضر بن کنانہ اپنی قوم کی مجلس میں آۓ انکے پُرجلال چہرہ اور انکی وجاہت اور تمکنت کو دیکھ کر اھل مجلس ایک دوسرے کو دیکھ کر کہنے لگے                                                                       اُنْظُرُوْا اِلٰی نَضْر کَاَ نَّہ، جَمْلُ قُرَیْشٍ                                                                                                                                  (کہ نضر کی طرف دیکھو یوں معلوم ھوتا ھے گویا بڑا طاقتور سانڈ ھے )

  • دوسری وجہ یہ بیان کی گئ ھے                                                                                                                           کہ قریش ایک بحری جانورکا نام ھے جو تمام چھوٹے چھوٹے سمندری جانوروں کو ھڑپ کرجاتا ھے کیونکہ بنو نضر قوت و ھیبت کی وجہ سے سب پر چھا جاتے تھے اس لۓقریش کے لقب سے ملقب ھوۓ -

تیسری وجہ یہ بتائ گئ ھے نضر لوگوں کی ضروریات کے بارے میں ان سے دریافت کیا کرتے اور ان کو پورا بھی کیا کرتے - اس لۓ ان کو قریش کیا گیا جو قرش سے ماخوذ ھے اور اسکے معنی تفتیش کرنا ھے - اپنے والد کی طرح نضر کی اولاد بھی موسم حج میں حجاج کے پاس جاتی - یہ لوگ انکی خیریت دریافت کرتے انہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو انہیں مہیا کرتے اس لۓ انہیں اس لقب سے نوازا گیا 
  • بعض کی راۓ یہ ھے کہ نضر کا نام قریش تھا اس لۓ انکی اولاد قریش کہلائ - 

مؤرخین کہتے ہیں بیشک نضر اور اسکی اولاد میں غریب پروری اورمسافر نوازی کی صفات تھیں اس وجہ سے انہیں بنو نضرھی کیا جاتا تھا - یہ قبیلہ قریش کے لقب سے اس وقت معروف ھوا جب قصیٰ نے اطراف عرب میں سے اپنے قبیلہ کے بکھرے ھوۓ افراد اور خاندانوں کو مکہ میں اکٹھا کیا اس وقت لوگوں نے کہا

تُقَرِّشُ بَنُوْ نُضَرْ اَیْ تَجْمَعُوْا


یعنی نضر کی اولاد مجتمع ھوگئ ھے

ابن ھشام لکھتے ھیں - 
                                 " قریش کا لفظ تقرش سے ماخوذ ھے اسکا معنی ھے تجارت کرنا ، کاروبار کرنا کیونکہ اس خاندان کا کسب معاش کا ذریعہ تجارت اور کاروبار تھا انکے قافلے دوردراز ملکوں تک تجارتی سامان لے کر جاتے تھے اور ضرورت کا سامان لے کر واپس مکہ مکرمہ آتے تھے اس لۓ یہ قریش کے لقب سے معروف و مشہور ھوۓ -"
                       
                     (الروض ا لا نف)






Tuesday, November 11, 2014

نضر

0 comments

نضر

انکا نام قیس تھا اور اپنے چہرے کی دمک اورحسن وجمال کی وجہ سےیہ نضر کے لقب سے مشہور ھوۓ - انکی والدہ کا نام برہ بنت مر بن ادبن طانجہ تھا - 
                               انکی والدہ کے بارے میں ایک غلط  بات مشہور ھوگئ ھے جسکا ازالہ ضروری ھے - کہتے ھیں کہ انکی والدہ برہ بنت مر پہلے نضر کے دادا خزیمہ کی منکوحہ تھیں - خزیمہ کی وفات کے بعد انکے والد کنانہ نے عرب کے رواج کے مطابق ان سے بیاہ کرلیا - اسکے نتیجے میں نضر کی ولادت ھوئ بیٹے کا باپ کی بیوہ سے نکاح کرنا اگرچہ وہ اسکی سگی ماں نہ ھومکروہ اور قبیح فعل ھے -اسلۓ وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام اور پیغمبراسلام کے ساتھ بغض کی بیماری ھے وہ حضور ﷺ کے نسب پاک پر طعنہ زنی کرنے کے لۓ اس واقعہ کو بہت اچھالتے ھیں - 
                   قارئین کی خدمت میں علماۓ محققین میں سے ابوعثمان الجاحظ کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ھے جس سے حقیقت حال واضح ھوجاۓ گی - جاحظ ایک آزاد منش محقق تھے اپنی تحقیق سے جس بات کی حقانیت ان پرواضح ھوجاتی اس کے اظہارمیں وہ بڑے بے باک تھے اور کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے تھے- وہ لکھتے ھیں - 

                         "کنانہ کے والد خزیمہ کا جب انتقال ھوا تو زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق انہوں نے اپنے باپ کی بیوہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا لیکن وہ جلد ھی فوت ھوگئیں - ان کے شکم سے نہ کوئ بیٹا پیدا ھوا اور نہ کوئ بیٹی پیدا ھوئ اسکے بعد کنانہ نے اپنی پہلی بیوی کے بھائ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کیا جسکا نام برہ بنت مُر بن اُدبن طانجہ ھے انکے شکم سے کنانہ کے فرزند نضر پیدا ھوۓ بہت سے لوگوں نے جب یہ سنا کہ کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو اپنی زوجیت میں لیا ھے تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ھوگۓ  کہ کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو زوجیت میں لے لیا اور اسکے شکم سے نضر پیدا ھوا - اور اس غلط فہمی کی وجہ یہ ھے کہ دونوں بیویوں کے نام بھی ایک تھے اور انکا باہمی رشتہ بھی بہت نزدیک تھا لیکن ھم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتےھیں اس سے کہ اس غلط فہمی میں مبتلا ھوں کہ نبی کریم ﷺ کے نسب پاک پر ناپسندیدہ اور مبغوض نکاح کا داغ لگائیں حالانکہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ھے کہ میں ابتداء سے آخر تک اسلامی نکاح کے مطابق ایک پشت سے دوسری پشت میں منتقل ھوتا رھا - "


                                    (السیرۃ النبوۃ از زینی دحلان)

                             جو شخص اس تحقیق کے علاوہ کچھ کہتا ھے گویا اس نے حضور ﷺ کے اس فرمان میں شک کیا اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لۓ ھیں جس نے اپنے حبیب کی ذات کو اور آپ ﷺ کے سارے آباؤواجداد کو ھر قسم 
کے عیبوں سے اور داغوں سے پاک صاف رکھا - 
                                   
                                (ضیاءالنبی ﷺ)


Monday, November 10, 2014

کِنانہ

0 comments

کِنانہ

کنانہ کے بارے میں بھی امام طبری نے لکھا ھے کہ انکی والدہ کا نام عوانہ بنت سعد بن قیس بن عیلان تھا اور بعض نے کہا ھے کہ انکی والدہ کا نام ھند بنت عمرو بن قیس تھا - 
                      امام محمد بن یوسف انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ کنانہ کا معنی ترکش ھے جسطرح ترکش تیروں کو اپنے اندر چھپا لیتا ھے اسی طرح انہوں نے بھی اپنی ساری قوم کواپنے جودوکرم کے دامن سے چھپا لیا تھا اس لۓ انکا یہ نام مشہور ھوا -

" عامر العدواتی نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ھوۓ فرمایا اے میرے فرزند ! میں نے کنانہ بن خزیمہ کواس حالت میں دیکھا کہ وہ بہت زیادہ بوڑھے ھوچکے تھےاور انکے علم وفضل کی وجہ سےاہل عرب دوردراز سے انکی زیارت کے لۓ آتے تھے انہوں نے ان کو کہا

" مکہ سے ایک نبی کے ظاہر ھونے کا وقت قریب آگیا ھے انکا نام نامی احمد ھوگا وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دیں گے نیکی ، احسان اور مکارم اخلاق کی تلقین فرمائیں گے پس اے اھل عرب ! تم اس نبی مکرم کی پیروی کرنا - اس سے تمہاری عزت و شرف میں اضافہ ھوگا -"


                  یہی مصنف اس کے بعد فرماتے ھیں-

       
"کہ ایک روز کنانہ حطیم میں سو رہے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا انہیں کہا گیا کہ ان چار چیزوں میں سےایک چن لو - گھوڑے ، اونٹ ، تعمیرات اور دائمی عزت -
آپ نے عرض کی اے میرے رب ! مجھے یہ ساری نعمتیں عطا فرما -"
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کے طفیل قریش کو یہ ساری نعمتیں عطا فرمائیں - "


                                          (سبل الہدیٰ و الرشاد ، ضیاء النبی ﷺ )

خُزیمہ

0 comments

خُزیمہ

انکے بارے میں اتنا ھی معلوم ھوسکا ھے کہ انکی والدہ کا نام سلمیٰ بنت اسلم تھا - انکے سگے بھائ کا نام ھزیل تھا - ماں کی طرف سے بھی انکا ایک بھائ تھا  ، جسکا نام تغلب بن حلوان تھا - 

            
                                 (تاریخ طبری)

امام محمد بن یوسف الصالحی انکے بارے میں لکھتے ھیں

"لوگوں پر انکے انعامات واحسانات کا شمار نہیں کیا جاسکتا انکے فضائل ومکارم کے بارے میں کسی نے خوب کہا ھے فضائل و مکارم جتنے تھےوہ تو سب کے سب تیزی سے خزیمہ کی ذات میں جمع ھوگۓ ہیں اور ان میں سے کوئ بھی مکرمت باقی نہیں رہ گئ -"

                                    (تاریخ طبری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ھے؛
          

"خزیمہ کی وفات ملت ابراھیمی پر ھوئ"-

                                                        (سبل الہدیٰ و الرشاد)

Sunday, November 9, 2014

مدرکہ

0 comments

مدرکہ

علامہ طبری لکھتے ھیں ان کا اصل نام عمرو تھا -  انکی والدہ خندف کے لقب سے مشہور تھیں انکا نام لیلیٰ بنت حلوان تھا - یہ یمن کے ایک قبیلے کی نیک خاتون تھیں اور اپنے اوصاف و شمائل کی وجہ سے بڑی قدرواحترام سے دیکھی جاتی تھیں یہاں تک کہ انکی اولاد کو باپ کے بجاۓ انکی (ماں) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا - ایک روز عمرو اور عامر جنگل میں اونٹ چرا رہے تھے کہ انہیں شکار مل گیا وہ اسے پکانے میں مصروف ھو گۓ اچانک ایک خرگوش چھلانگیں لگاتا ھوا وھاں سے گزرا اونٹ اس سے بدکے اور بھاگ کھڑے ھوۓ - 

                      عمرو نے عامر سے پوچھا اونٹوں کے پیچھے جاؤگے یا شکار پکاؤگے ؟ اس نے شکار پکانے کی ہامی بھر لی - عمرو اونٹوں کے پیچھے دوڑے اور انہیں جا پکڑا اور ہانک کر واپس لاۓ شام کو دونوں واپس آۓ باپ کو واقعہ سنایا انہوں نے عمرو کو کہا انت مدرکہ اور عامر کو کہا انت طانجہ - اور دونوں انہیں ناموں سے مشہور ھوگۓ -

                                                        
                                                (تاریخ طبری)

الیاس

0 comments

الیاس

  
یہ قبائل عرب کے سربراہ اور سردار تھے اھل عرب انہیں سید العشیرہ کے لقب سے ملقب کیا کرتے تھے جملہ فیصلہ طلب امور ان کی خدمت میں پیش کۓ جاتے - سب سے پہلے قربانی کا جانور لے کر بیت اللہ شریف جانے والے یہی ھیں

حدیث شریف

              الیاس کو برا بھلا مت کہو وہ مومن تھے اھل عرب میں انکی مثال ایسی تھی جیسے لقمان حکیم 

اپنی قوم میں -

                      (السیرۃ النبویہ)

آپ کا حکیمانہ کلام

  • جو خیر کو بوتا ھے وہ خوشی کی فصل کاٹتا ھے
  • جو برائ کو بوتا ھے وہ ندامت کی فصل کا ٹتا ھے
مشہور ماھر انساب ابن الزبیر سے منقول ھے کہ جب الیاس جوان ھوۓ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں جو خرابیاں پیدا ھوگئ تھیں ان پر ان کو ملامت کی اور انہیں تلقین کی کہ اپنے جلیل القدر باپ کی سنن و اطوار کی پابندی کریں آپکی کوششیں بارآور ثابت ھوئیں اور آپکی قوم نے ازسرنو راہ راست کو اختیار کرلیا جو انکے سلف صالح نے اپنے لۓ پسند کیا تھا 
             قبیلہ کے سارے مردوزن آپکی دل سے تعظیم کرتے اور آپکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے - 
                         
                             (سبل الہدیٰ و الرشاد)                              


Sunday, November 2, 2014

مُضَر

0 comments
مُضَر

آپکی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے 

لانہ کان یمضر القلوب ای یاخذھا لحسنہ و جمالہ ولم یرہ احد الا احبہ لما کان یشاھد فی وجھہ من نور النبی 

"یعنی یہ اپنے حسن وجمال کی وجہ لوگوں کو اپنا شیدائ بنا لیتے تھے جوشخص بھی ان کو دیکھتا تھاان پر فریقتہ ہو جایا کرتا تھا - کیونکہ ان چہرے پر بھی نور مصطفوی ﷺ کے جلوے ضوفشاں ہوا کرتے تھے "-

(السیرۃ النبویہ )

مُضَر کے حکیمانہ اقوال


  • بہترین بھلائ وہ ہے جو فوراً کی جاۓ
اپنے نفسوں کو مشکل باتوں کا خوگر بناؤ اور ہوا و ہوس سے انکا رخ پھیرے رکھو-

فہم و فراست

یہ چار بھائ تھے -مضر ، ربیعہ ، ایاد ، انمار- انکے والد نزار جب فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی اے میرے بیٹوں! یہ سرخ رنگ کا قبہ اور اس سے متعلقہ چیزیں ایاد کی ہیں - ندوہ ' مجلس اور اس سے متعلقہ چیزیں انمار کی ہیں اگر کسی بات پر تم میں اختلاف پیدا ہو تو تصفیہ کے لۓ نجران کےافعیٰ جرہمی کے پاس جانا ااور اس سے اپنے جگھڑے کا فیصلہ طلب کرنا -
اتفاق سے تقسیم جائداد میں باہمی اختلاف پیدا ہو گیا باپ کی وصیت کے مطابق وہ نجران روانہ ہوۓ تاکہ افعیٰ جرہمی سے اس تنازعہ کا فیصلہ کرائیں- اثناۓ سفر مضر نے گھاس دیکھی جس کو کسی اونٹ نے چرا تھا کہنے لگے جس اونٹ نے اس گھاس کو چرا ھے وہ کانا ھے - ربیعہ نے کہا وہ لنگڑا ھے -ایاد نے کہا وہ دم بریدہ بھی ھے - انمار نے کہا وہ بھاگا ھوا ھے
                اس گفتگو کے بعد وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے کجاوہ سر پر اٹھایا ھوا تھا اس نے ان سے اپنے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا مضر نے کہا کیا وہ کانا ھے اس نے کہا ھاں- ربیعہ نے کہا کیا وہ لنگڑا ھے اس نے کہا ھاں - ایاد نے کہا کیا وہ دم کٹا ھے اس نے کہا ھاں- انمار نے کہا کیا وہ بھاگا ھوا ھے اس نے کہا ھاں - خدارا مجھے بتائیں میرا اونٹ کہاں ھے ؟ انہوں نے کہا بخدا ھم نے اس کو نہیں دیکھا بدو نے کہا یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ دیکھے بغیر اس کے سارے نشانات بتادیے ھیں وہ بھی انکے ساتھ چل پڑا کہ افعیٰ سے اپنے اونٹ کا فیصلہ کراۓ -
                       جب اسکے پاس پہنچے تو سب سے پہلے اونٹ کے مالک نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ ان لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ھے لیکن مجھے بتاتے نہیں - کہتے ھیں ھم نے دیکھا ھی نہیں افعیٰ نے ان سے پوچھا اگر آپ لوگوں نے اسے دیکھا نہیں - تو اسکی ساری نشانیاں کیسے گنوادیں ھیں
مضر نے کہا میں نے جب اس گھاس کو دیکھا جسکو اس نے چرا ھے تو وہ اہک طرف سے چری ھوئ تھی دوسری طرف سے جوں کی توں لہلہا رھی تھی میں نے سمجھ لیا کہ وہ کانا ھے جو دیکھا ھے اسے چر لیا اور دوسری طرف جو اس نے نہیں دیکھی چھوڑ دی-
ربیعہ نے کہا کہ اس کے ایک پاؤں کے نشان با لکل واضح  تھے دوسرے پاؤں کے نشان ادھورے تھے میں نے سمجھ لیا کہ یہ لنگڑا ھے -
ایاد نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی مینگنیاں صحیح سالم ھیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کی دم کٹی ھوئ ھے ورنہ اس کی مینگنیاں ٹوٹی ھوئ ھوتیں
انمار نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس نے گنجان گھاس چرنے کے لۓ منہ ڈالا ھے لیکن اسے ادھورا چھوڑ کر آگے نکل گیا ھے میں نے سمجھا کہ وہ بھاگا ھوا ھے اس لۓ اطمینان سے گھاس کو نہیں چر رھا-
                      یہ سن کر جرھمی نے اونٹ کے مالک سے کہا کہ جاؤ اپنا ااونٹ تلاش کروانکے پاس تمہارا اونٹ نہیں ھے پھر اس نے پوچھا آپ لوگ کون ھیں اور کیوں آۓ ھیں ؟ انہوں نے کہا ھم نزار بن معد کے فرزند ھیں اور اپنے باہمی جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لۓ تمہارے پاس آۓ ھیں اس نے کہا بڑے تعجب کی بات ھے اس فہم وذکا کے مالک ھوتے ھوۓ آپ میرے پاس آۓ ھیں پھر اس نے انکی پرتکلف دعوت کی - آخر میں شراب پیش کی کھانے پینے سے فارغ ھوۓ تو مضر نے کہا ایسی بہترین شراب عمر بھر کبھی نہیں پی کاش! اسکے انگور کی بیل قبر پر نہ اُگی ھوتی -
ربیعہ نے کہا ایسا لذیذ گوشت آج تک نہیں کھایا کاش! اس بکری کی پرورش کُتّی کے دودھ سے نہ کی گئ ھوتی -
ایاد نے کہا میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا کاش! اس کی نسبت غیر باپ کی طرف نہ کی گئ ھوتی -
انمار نے کہا میں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی جو ھمارے مقصد کے لۓ مفید ھو-
                          جرھمی نے انکی باتیں سنیں اور تصویرحیرت بن کر رہ گیا وہ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا سچ بتاؤ میں کس کا بیٹا ھوں ؟ اس نے بتایا کہ میں ایک سردار کی منکوحہ تھی وہ لاولد تھا میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ لاولد مرجاۓ چنانچہ میں نے ایک شخص سے بد فعلی کی جس سے تو پیدا ھوا اس نے اپنے ناظم مطبخ سے شراب کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا کہ میں نے تیرے باپ کی قبر پر انگور کی ایک بیل لگائ تھی اس کے انگوروں سے یہ شراب کشید کی گئ اس نے اپنے چرواھے سے گوشت کے بارے میں دریافت کیا اس نے بتایا کہ بکری نے بچہ جنا اور مرگئ میں نے اس بچہ کی پرورش کُتّی کے دودھ سے کی جرھمی ان کی ذھانت اور فطانت دیکھ کرحیران رہ گیا پھر اس نے دعویٰ سنا اور اسکا فیصلہ دیا -
          اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ھیں کہ اللہ کریم نے اپنے روؤف رحیم نبی کے اجداد کو جمال صورت ، حسن صورت کے ساتھ فہم وفراست کا وہ بے پایاں ملکہ عطا فرمایا تھا جسے دیکھ کر زمانہ کے دانش ور پھڑک اُٹھتے تھے -

                              (اعلام النبوۃ المادردی ،  تاریخ طبری)

حدیث مبارکہ

  •  ربیعہ اور مضر کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ دونوں مومن تھے

  • مضر کو برا بھلا نہ کہو وہ حضرت اسماعیل کے دین پر تھا -   
                          (السیرۃ النبو یہ)                    

نننننن

Saturday, November 1, 2014

نزار

0 comments

نزار

         یہ معد کے بیٹے تھے جب انکی ولادت ھوئ اور انکے والد معد نےانکی دونوں آنکھوں کے درمیان وہ نور نبوت چمکتا دیکھا جو پشت در پشت منتقل ہوتا چلاآرہا تھا تو انکی خوشی کی کوئ حد نہ رہی -آپ نے کثیر تعداد میں اونٹ ذبح کۓ پرُتکلف دعوت کا اہتمام کیا جس پر بڑا روپیہ خرچ ہوا اسکے باوجود کہا کہ اس بیٹے کی صورت میں جو انعام اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا ہےاس کے مقابلہ میں جو کچھ میں نے خرچ کیا ہے کچھ بھی نہیں-
            
      ھٰذا نَزْرٌ قَلِیْلٌ فِیْ حَقِّ ھٰذَا ا لْمَوْلُوْدِ

    اسی سے اس مولود مسعود کا نام نزار مشہور ہو گیا
                                                  
                                                                         ( سبل الہدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد )

آپ اپنے زمانے میں تمام لوگوں سے حسین و جمیل تھے اور عقل و فہم میں کوئ انکا ہمسر نہ تھا -علامہ ماوُری "اعلام النبوۃ" میں فرماتے ہیں کہ یہ فرزند بڑا بلند اقبال تھا جس شاہی دربار میں تشریف لے جاتے بادشاہ خود انکا اکرام کرتے - اور بڑی محبت سے پیش آتے-